Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

الیکشن 2024 اور سوشل میڈیا چیلینجز

Now Reading:

الیکشن 2024 اور سوشل میڈیا چیلینجز
social media1

پاکستان کے الیکشن 2024 بس اب کچھ دنوں  کی بات رہ گئے ہیں ۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز زور وشور سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر متحرک نظر آرہی ہیں اور مختلف کپمین چلاتی نظر آئینگی لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری ان کمپینز میں کسی ضابطہ اخلاق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جارہا اور اس کی زد میں نجی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

اگر اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ سابقہ ٹویٹر اور حالیہ ایکس پر پاکستان میں ٹاپ پر رہنے والے ٹرینڈز دیکھیں تو اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹرینڈز نظر آئینگے لیکن ان ٹرینڈز میں خاص بات یہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مخالف سیاسی پارٹی اور اس کے لیڈران کے لیے گالم گلوچ سے بھرپور ہوتے ہیں۔

یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا پر ٹرینڈز کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز  جس میں فیس بک انسٹاگرام ایکس  یوٹیوب  وغیرہ شامل ہیں وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز مختلف کمپینز کرتی نظر آرہی ہیں۔

یہ اچھی بات ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریے اپنا پیغام مربوط اور آسان طریقے سے اپنے ووٹر تک پہنچایا جائے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹمیز کا کسی قسم کے ضابطہ اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں اور خصوصی طور پر خواتین سیاستدانوں کی نجی زندگیوں کو سوشل میڈیا پر اچھالا جارہا  ہے ۔

Advertisement

خواتین سیاستدانوں کے کپڑوں جوتوں پرس میک اپ ان کے جسمانی خدوخال کو لیکر جتنی بے ہودہ قسم کی کمپینز  جاری ہیں ان کی مثال شاید کہیں ملے ۔

سب سے تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ وطیرہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنالیا ہے  اور  اندھا دھند ایک دوسرے کی کردارکشی میں کوئی کمی نہیں رکھی جارہی ہے ۔

کبھی کسی کی شادیوں کی خبروں کو اس کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے تو کہیں کسی کے مالی اثاثوں کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں ،

تو کہیں پولیس کے جعلی چھاپوں اور ان کی جانب سے گھر کی  خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کی خبریں سامنے نظر آرہی ہیں۔

اب جیسے جیسے الیکشنز قریب آتے جارہے ہیں اس سلسلے میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔

اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا  کہ دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی انتخابات پر سوشل میڈیا کا خاصا اثر پڑا ہے، فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال نے سیاسی مہم چلانے اور ووٹرز تک معلومات پہنچانے کے طریقے کو تبدیل کر دیا ہے۔

Advertisement

پاکستان میں، سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے ووٹروں تک پہنچنے اور ان سے منسلک ہونے کا ایک طاقتور ذریعہ بن گیا ہے۔ امیدواروں کو روایتی میڈیا چینلز کو نظرانداز کرنے اور اپنے پیغامات کو براہ راست پہنچانے میں مدد فراہم کی ہے۔ اس براہ راست رابطے نے سیاست دانوں کو اپنے حامیوں کو متحرک کرنے اور تقریبات منعقد کرنے کی صلاحیت فراہم کی ہے۔

 سوشل میڈیا پاکستان میں نوجوان ووٹرز کو شامل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سرگرم ہیں، اور سیاسی جماعتوں نے اس آبادی تک پہنچنے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال نے سیاستدانوں کو نوجوان ووٹروں سے رابطہ قائم کرنے اور انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے۔

 اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے پاکستان میں انتخابات کے دوران غلط معلومات اور غلط معلومات پھیلانے میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔ غلط بیانیوں، جعلی خبروں، اور ہیرا پھیری والی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال رائے عامہ کو متاثر کرنے اور ووٹرز میں الجھن پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس سے انتخابی عمل کی سالمیت اور ووٹرز کی باخبر فیصلے کرنے کی صلاحیت پر سوشل میڈیا کے اثرات کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

ان چیلنجز کے جواب میں، پاکستانی حکومت نے انتخابات کے دوران سوشل میڈیا کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے رہنما اصول متعارف کرائے ہیں، اور آن لائن غلط معلومات کے پھیلاؤ کی نگرانی اور مقابلہ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

 اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معروف صحافی  دانشور اور شاعر عاطف توقیر  کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال نے لوگوں کے درمیان یقینی طور پر لوگوں کے درمیان رابطے کا سلسلہ تو بڑھادیا ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ فیک نیوز اور ڈیپ فیک نیوز جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرکے جعلی خبریں اور من گھڑت باتیں بھی پھیلائی جاتی ہیں۔

مستقبل میں  فیک نیوز اور ڈیپ فیک نیوز ٹیکنالوجی مزید بہتر ہوگی اس کا مطلب یہ ہوگا ہمیں وڈیوز اور دیگر جو پیغامات ہیں سوشل میڈیا پر ان کی تحقیق کیے بغیر  ان پر یقین سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ آگے چل کر یہ مہمات جو آج ہمیں سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہیں یہ اور زیادہ وائرل ہونگی۔ اس وقت جو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں سقم ہیں وہ آگے چل کر نہیں ہونگے اور یہ پروپیگنڈہ کے لیے مزید استعمال ہونگے ۔

Advertisement

تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ  ماضی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ سیاستدان ان سے ملنے نہیں آتے لیکن اب ایسا نہیں ہے اب  ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے  ووٹر  اور امیدوار کے رابطہ مسلسل موجود رہتا ہے ۔

عاطف توقیر کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے لیے دنیا بھر میں ضابطہ اخلاق موجود ہے لیکن سب سے زیادہ اہم بات ہے ہتک عزت اور ڈیفیمیشن کے قوانین کو مضبوط ہونا چاہیے.  دنیا بھر میں جو لوگ ہیں خاص طور پر جو خواتین ہیں یا وہ خواتین جو فیلڈ میں کام کررہی ہیں ان کی حفاظت کے لیے یہ قوانین موجود ہیں کہ انہیں جنس کی بنیاد پر یا رنگ یا نسل کی بنیاد پرکسی کو تنگ نہ کیا جاسکے

تاہم میڈیا کے قوانین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ اس سے یہ خوف رہتا ہے کہ اگر حکومت یہ کام کرنا شروع کریگی تو آزادی رائے وہ متاثر ہوسکتی ہے ‘اس لیے زیادہ بہتر ہوگا کہ ہتک عزت کے قوانین کو مضبوط کیا جائے اورسوشل میڈیا سے متعلق روابط وہ میڈیا ایکسپرٹرس اور میڈیا آرگنائزیشنز اپنے ہاتھ میں لیں

 اس حوالے سے کہ ڈیجیٹل میڈیا مہم کس قدر الیکشن پر اثر انداز ہوگی ان کا کہنا تھا کہ  پاکستان میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے پاکستان میں قریب ستر فیصد آبادی تیس سال یا اس سے کم عمر کی ہے ایسے میں ڈیجیٹل دور میں ہر شخص کے پاس تقریبا اسمارٹ فون موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ تمام افراد جو انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں ان تک کوئی بھی پیغام انٹرنیٹ کے ذریعے پہنچ سکتا ہے  اور ظاہر ہے کہ عوامی رائے ہی کسی بھی جمہوری ملک میں یا انتخابی سیاست والے ملک میں ہوتی ہے تو سوشل میڈیا وہ انتخابات کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے ۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہی نہیں سابقہ  امریکی انتخابات میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں  کہ روس میں سوشل میڈیا کا استعمال کرکے اور فیک نیوز کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ اسی طرح دنیا میں دیگر ممالک میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز کے ذریعے ڈیپ فیک کے ذریعے انتخابات کو اور الیکٹرورل پراسس کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔

پاکستانی سیاست اور انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی احمد اعجاز  کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پہلی بار 2024 کے الیکشن میں ڈیجیٹل میڈیا  الیکٹرانک میڈیا  کے متوازی استعمال میں لایا جارہا ہے اور اس کو انتخابی کمپین کا حصہ بنایا جارہا ہے کیونکہ  ایک بڑی سیاسی جماعت جو  اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوچکی ہے اور اب وہ اپنی انتخابی  کپمین سوشل میڈیا  پر چلارہی ہے ۔  اس سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال اس سے پہلے بھی الیکشنز میں کیا تھا تاہم اس وقت ان کے آزاد امیدواروں کی اتنخابی مہم کا مکمل دارومدار سوشل میڈیا پر ہی ہے ۔ اس لیے جو  معروف  لیڈر زہیں انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کی بڑی بڑی ٹیمیں رکھی ہوئی ہیں اس میں مقامی یو ٹیوبرز ہیں ٹک ٹاکرز ہیں فیس بک اور ایکس اور انسٹا انفلوئسرز ہیں  تو وہ ان کے ذریعے اپنی کمپین کو چلارہے ہیں

Advertisement

سوشل میڈیا پر سیاسی لیڈران کے حوالے سے چلنے والی منفی کمپین کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کیونکہ الیکشنز میں یہ ٹیکنالوجی پہلی بار کپمین کے طور پر استعمال کی جارہی ہے  اسے الیکشن کا حصہ بنارہے ہیں تو کیونکہ یہ ہماری ایجادت تو ہے نہیں تو ہمارے رویے بھی ویسے نہیں ہیں کیونکہ جو چیز ہم خود بنائی نہیں۔ ہمارے رویے بھی ویسے ہی ہونگے کیونکہ ٹیکنالوجی باہر سے آتو جاتی ہے لیکن رویے  نہیں اس لیے ہمیں ابتدائی طور پر وہاں سے مسائل کا شکار ہونا پڑا ۔

 ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ پاکستان میں سیاسی مہم  بنیادی طور پر پروپگینڈے پر کھڑ ی ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی ایشو پر نہیں ہوتی کسی منشور پر نہیں ہوتی یہ کام کسی ترتیب کے بغیر ہورہا ہوتا ہے اور ہر طرح کے لوگ اس مہم کا حصہ ہوتے ہیں  تو اس میں صاف ظاہر ہے کہ پھر  مخالفین کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

اب خواتین ان سے کیسے بچیں اس کا تو کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے کہ وہ اس سے بچ سکیں بس یہی ہے کہ اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ اس طرح کی ٹرولنگ کا سامنا ان کو کرنا پڑتا ہے ۔

ا ن کا مزید کہنا تھا کہ  ہماری سیاست نے بھی یہی سکھایا ہے کہ پروپگینڈہ پر مبنی سیاسی مہم چلائی جائے تو سوشل میڈیا پر چلنے والی  منفی مہم بی  اسی کا نتیجہ ہے ۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور انتخابی عمل میں توازن کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے جبکہ ہر حلقے میں تو چالیس چالیس پچاس پچاس یوٹیوبرز پیدا ہوچکے ہیں وہ اپنی دیہاڑیاں لگارہے ہیں ان کی نا ہی کوئی ٹریننگ ہے نا ہی کوئی ان کے اخلاقیات ہوتے ہیں بس ان کو یہ پتہ ہے کہ الیکشن ہیں اور ان کو پیسے کمانے ہیں  اورپیسے کمانے کے لیے انہیں پروپگینڈہ کرنا ہے اور ظاہر ہے پروپگینٖڈہ وہی بکے گا جو زیادہ شور کریگا۔ دوسروں کی کردار کشی کریگا تو توازن کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔

تاہم ان کا ماننا ہے کہ  جو ڈیجیٹل  میڈیا کی بڑی آرگنائزیشنز ہیں ان کے  سوشل میڈیا کے اچھے پیلٹ فارمز ہیں وہ اسطرح کا پروپگینڈہ نہیں کرینگے  تاہم  جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مقامی  اور اناڑی ہیں وہ تو چل ہی اس پروپگینڈہ پر رہے ہیں ۔

Advertisement

 مجموعی طور پر، سوشل میڈیا نے پاکستان میں انتخابات پر گہرا اثر ڈالا ہے، جس سے سیاسی مہم چلانے کے طریقے، عوامی گفتگو اور ووٹرز کو متحرک کیا جاتا ہے۔ جہاں اس نے سیاسی مشغولیت اور شہری سرگرمی کے نئے مواقع لائے ہیں، وہیں اس نے غلط معلومات کے پھیلاؤ اور ضابطے کی ضرورت سے متعلق چیلنجز بھی پیش کیے ہیں۔

 آگے بڑھتے ہوئے، پاکستانی حکام کے لیے یہ انتہائی اہم ہو گا کہ وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے سوشل میڈیا اور انتخابی عمل کے درمیان پیچیدہ تعلقات کو جاری رکھیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ترک لینڈ فورسز کے کمانڈر کی ملاقات
ضلع خیبر میں سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، 4دہشتگردہلاک
حکومت نےآئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری کر دی
جس نےبندوق اٹھائی اس سےسختی سےنمٹیں گے، میرسرفراز بگٹی
ترک بری افواج کے کمانڈر کو نشان امتیاز ملٹری دے دیا گیا
کینیا میں ڈیم پھٹنے سے ہلاکتوں کی تعداد 120 سے تجاوز کر گئی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر