Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

موٹاپے کے بڑھتے ہوئے عالمی مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آگئی

چین میں ہونے والی اس تحقیق میں 25 ایسے رضاکار شامل تھے جن کا وزن حدِ معیار سے زیادہ تھا۔

سائنس دانوں نے موٹاپے کے بڑھتے ہوئے عالمی مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک اہم پیش رفت کی ہے۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وقفے وقفے سے کم خوراک لینے کا طریقہ نہ صرف جسمانی وزن کم کرتا ہے بلکہ آنتوں اور دماغ دونوں میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جو مستقبل میں صحت مند وزن برقرار رکھنے کے نئے طریقے فراہم کرسکتا ہے۔

چین میں ہونے والی اس تحقیق میں 25 ایسے رضاکار شامل تھے جن کا وزن حدِ معیار سے زیادہ تھا۔ انہیں مجموعی طور پر 62 دن کے ایک پروگرام میں شامل کیا گیا جس میں کچھ دنوں پر مشتمل جزوی روزہ نما غذائی شیڈول رکھا گیا اور روزانہ کیلوری کی مقدار کو سختی سے کنٹرول کیا گیا۔

وزن میں نمایاں کمی اور دماغی سرگرمی میں غیر معمولی تبدیلیاں

تحقیق کے نتائج کے مطابق اس طریقہ خوراک پر عمل کرنے والوں کا وزن اوسطاً 7.6 کلوگرام کم ہوا جو کہ ان کے مجموعی وزن کا تقریباً 8 فیصد بنتا ہے۔

تاہم سائنس دانوں کے لیے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ شرکاء کے دماغ کے ان حصوں میں سرگرمی میں تبدیلی آئی جو بھوک، خواہش اور کھانے کی لت سے وابستہ ہوتے ہیں۔

آنتوں میں موجود بیکٹیریا کی ساخت میں بھی واضح تبدیلیاں دیکھی گئیں

چینی ماہرِ صحت چھیانگ زینگ کے مطابق اس غذائی طریقے نے انسانی دماغ، آنت اور خرد حیاتیات کے باہمی نظام میں قابلِ ذکر اثرات پیدا کیے۔

ان کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کے دوران اور بعد میں آنتوں کے جراثیم اور دماغ کے بعض حصوں کی سرگرمی میں ہونے والی تبدیلیاں نہایت متحرک اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

دماغ کے وہ حصے جو بھوک اور خواہش کو کنٹرول کرتے ہیں

دماغی تبدیلیوں کا سراغ جدید مقناطیسی عکس بندی کے ذریعے لگایا گیا۔ یہ تبدیلیاں خاص طور پر دماغ کے اس حصے میں دیکھی گئیں جو بھوک کے احساس، کھانے کی خواہش اور خود پر قابو رکھنے سے متعلق سرگرمی کی نگرانی کرتا ہے۔

اسی دوران آنتوں کے جراثیم کا تجزیہ فضلے اور خون کے نمونوں سے کیا گیا جن میں کچھ جراثیم کی مقدار دماغ کی مخصوص سرگرمی کے کم یا زیادہ ہونے سے منسلک پائی گئی۔

مثال کے طور پر کوپروکوکس کومز اور ایوبیکٹیریم ہالیائی نامی جراثیم دماغ کے اس حصے کی کم سرگرمی سے تعلق رکھتے ہیں جو انسان کی ارادے اور کھانے پر قابو رکھنے کی صلاحیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

آنت اور دماغ؛ ایک دو طرفہ رابطہ

تحقیق میں شامل ایک اور ماہر شیاؤ نِنگ وانگ کے مطابق آنت اور دماغ کے درمیان رابطہ نہایت پیچیدہ مگر دو طرفہ ہوتا ہے۔

آنتوں کے جراثیم ایسے کیمیائی مادے پیدا کرتے ہیں جو اعصاب اور خون کے ذریعے دماغ تک پہنچتے ہیں جب کہ دماغ بدلے میں انسان کی غذا اور کھانے کے رویے کو کنٹرول کرتا ہے۔

موٹاپے کے علاج میں نئی امید

دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد موٹاپے کا شکار ہیں جو دل کے امراض، سرطان اور دیگر خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر آنتوں اور دماغ کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھ لیا جائے تو موٹاپے کے علاج میں بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔

تحقیق کے سینئر ماہر لی مِن وانگ کے مطابق اب اگلا مرحلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ آنت اور دماغ کے کون سے مخصوص حصے وزن کم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ تحقیق مستقبل میں موٹاپے کے بہتر علاج اور غذا سے متعلق نظام کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔