اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفرکیس میں اپیلوں سے متعلق سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمودقریشی کی اپیلوں پرسماعت چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ عامرفاروق، جسٹس میاں گل حسن نے کی۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سےبیرسٹرسلمان صفدر، ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم میں حامدعلی شاہ، ذوالفقارنقوی ودیگرعدالت میں پیش ہوئے۔
بانی پی ٹی آئی اورشاہ محمودکی فیملی، پارٹی قیادت کمرہ عدالت میں موجود تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سیکشن فائیو ون سی اور ون ڈی میں ایک چارج لگنا ہے جس پروکیل سلمان صفدرنے کہا کہ یہ دونوں چارج ایک دوسرے کے متضاد ہیں، سائفر اعظم خان کی کسٹڈی میں تھا، اعظم خان نے سائفر وصول کیا، کہا گیا ہے پرنسپل سیکرٹری کو جاری کی گئی سائفر کاپی واپس نہیں آئی۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے استفسارکیا کہ وزیراعظم یا اس طرح کی پوزیشن پر کوئی ڈاکومنٹ سیکریٹری کی پوزیشن میں ہو تو کیا ہو گا؟ اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے کاپی وزیراعظم کو دے دی تھی، واپس نہیں آئی۔
بیرسٹرسلمان صفدرنے کہا کہ گزشتہ سماعت پر فائیو ون سی اور ڈی کی بات کر رہے تھے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں ایک چیز پر آپ سے متفق ہوں کہ ایک چارج لگنا تھا ملزمان پر۔ آفیشل مؤمنٹ میں اعظم خان کو ملی چیز، وزیراعظم کی ذمہ داری سمجھی جائے گی یا نہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان نے وصول کی تھی تو واپس کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی تھی جس پرجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں یہ چیز سمجھائیں کہ آپ کو کاپی ملی ہی نہیں یا آپ نے وصول کرنے کے بعد واپس کیا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اعظم خان کا بیان موجود ہے کہ اس نے کاپی بانی پی ٹی آئی کو دی تھی۔ وکیل نے جواب دیا کہ بانی پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ میں نے کاپی وصول کی تھی مگر دفتر سے وہ غائب ہوگئی۔
عدالت نے استفسارکیا کہ کیا اعظم خان نے کاپی آپ کو دی؟ آپ کی پوزیشن کیا ہے؟ بیرسٹرسلمان صفدرنے جواب دیا کہ دیا گیا یا نہیں ؟ وزیراعظم نے لیا یا نہیں؟ یہ پراسیکوشن کے ثبوت میں نہیں آیا۔ میری پوزیشن یہ ہے کہ سائفر کاپی وزیراعظم آفس سے گم ہو گئی یہی بات اعظم خان نے کی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل دیے کہ 9 مارچ کو سائفر کاپی وزیر اعظم کو deliver ہوئی۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے استفسارکیا کہ وزیراعظم یا اس طرح کی پوزیشن پرکوئی ڈاکومنٹ سیکرٹری کی پوزیشن میں ہو تو کیا ہوگا؟ اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے کاپی وزیراعظم کو دے دی تھی واپس نہیں آئی۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا کیس کیا ہے کہ اعظم خان نے سائفر دیا نہیں یا انہوں نے اپنے پاس نہیں رکھا؟ ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ آپکی اس معاملے پرپوزیشن کیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفرلے کر پڑھا لیکن واپس یا گُم کرنے سے متعلق شہادت میں کچھ نہیں آیا جس پرچیف جسٹس عامرفاروق نے کہا ہم یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ اس متعلق آپکا مؤقف کیا ہے، اعظم خان تو اپنے بیان میں کہتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے سائفر کاپی گُم ہوئی۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ سائفر کاپی وزیراعظم آفس کی جانب سے گُم ہوئی۔ جس پر عدالت نے پوچھا کہ سائفر کی کاپی اعظم خان کو کب موصول ہوئی؟
وکیل سلمان صفدرنے جواب دیا کہ سائفر کاپی 9 مارچ کو اعظم خان کو سپرد کی گئی، سائفر کاپی جسے سپرد کی گئی اسے ملزم سے گواہ بنا دیا گیا تو خود بھگتیں، سرکارکے اپنے چار گواہ ہیں جو کہتے ہیں کہ سائفر کی کاپی اعظم خان کو دی گئی، جب سائفر کاپی وزیراعظم کو سپرد ہوئی ہی نہیں تو جس کے سپرد ہوئی اس کو آپ نے گواہ بنا دیا تو آپ بھگتیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسارکیا کہ اعظم خان پر چارج پر کیوں نہیں لگایا گیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ میں یہی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ملزم ہر چارج لگتا ہے انہوں نے اس کو گواہ بنا لیا، ملزم کو گواہ بنا کر پراسکیوشن نے اپنا کیس خراب کردیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک ڈاکومنٹ آپ کے پاس آیا اسے رکھنے کی ڈیوٹی آپ کی نہیں ہے، تو اس کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے۔
بیرسٹرسلمان صفدرنے کہا کہ گواہوں نے بیان دیا کہ ہم نے وزیراعظم کو کاپی گم ہونے کا بتاتے رہے، ایک چھوٹی سی غفلت کے حصے کو بنیاد بنا کر سابق وزیراعظم کو سزا نہیں دے سکتے۔ یہ ایسا کیس ہے جس میں کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی کیس بنایا گیا تواس کی فائنڈنگ کیا ہیں؟ بیرسٹرسلمان صفدرنے جواب دیا کہ وزرات خارجہ نے کبھی انکوائری نہیں کی تو کیس کیسے بن سکتا ہے ان کا؟پورے ٹرائل میں آڈیو کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ جو پارٹی چھوڑ دیتے ہیں وہ بری ہو جاتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اسد عمرنے پارٹی چھوڑ دی ہے کہیں لکھا ہوا؟ جس پروکیل نے جواب دیا کہ نہیں کہیں لکھا ہوا نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسارکیا کہ سائفر کی حفاظت اس لیے ہے کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے، کیا کسی نے وہ سائفر دیکھا ہے؟ وکیل سلمان صفدرنے جواب دیا کہ نہیں، حتی کہ میں نے بھی نہیں دیکھا، کسی گواہ نے بھی اُس کے متن سے متعلق کچھ نہیں بولا۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدرنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم نے آپ کو میرٹ پر سن لیا، آپ کیوں ایسا سوچ رہے کہ ریمانڈ بیک ہوگا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جو بھی چیزیں آپ نے بتانی ہیں وہ آپ ہمیں تحریری طورپردیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے عدالت سے کہا کہ مجھے تین دن کا وقت چاہیے ہوگا جس پرجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم سزا معطل کردیتے ہیں، پھر آپ ایک ماہ لے لیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News