
چھوٹے تاجروں کی اپنی فنانس کمیٹی کے کنوینر شوکت حسن کے ساتھ ملاقات، ملک کو درپیش مالیاتی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں نے اپنی فنانس کمیٹی کے کنوینر شوکت حسن کے ساتھ ملاقات کی جس میں ملک کو درپیش مالیاتی چیلنجز پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو ان اقدامات کی بھی سفارش کی جن پر بلاتاخیر غور اور عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ یونین آف اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرازئز ) یونیسیم (کے صدر ذوالفقار تھاور نے اجلاس کے دوران شرکاء کو خوش آمدید کہا۔
شوکت حسن نے کہا کہ سیاسی استحکام ترقی کی کنجی ہے اور ملک کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اس سمت میں کام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ دوست ممالک سے فنڈز جمع کرے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی اس میں تعاون کرنے کی درخواست کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تارکین وطن پاکستان کو ترقی کرتا اور مالی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے ضروری اشیا اور خام مال کی درآمد پر سے پابندیاں ہٹانے پر بھی زور دیا، اور کہا کہ حکومت کو تمام غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی جاری رکھنی چاہیے۔ اپنی تجاویز میں شوکت حسن نے کہا کہ حکومت تمام وزارتوں، محکموں، سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں مکمل کفایت شعاری اپنائے۔انہوں نے کہا کہ بجلی، ایندھن، خوراک، گیس اور پانی کے ضیاع کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو مانیٹرنگ پر عمل درآمد کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔
شوکت حسن کے مطابق حکام ملک بھر میں دن کے وقت کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے اور رات 8 بجے تک دکانیں اور بازار بند کردینے کے عمل کو فروغ دیں ۔ایک اور دائمی مسئلہ قرضوں کا بہت بڑا بوجھ ہے۔ یہ قرضے پاکستان کو اگلے چند سالوں میں ادا کرنے ہیں۔ صرف 2023 ء میں، ملک کو 90 سے 100 ارب ڈالر کی کل قرضوں میں سے تقریباً 23 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔
کسی بھی حکومت کے لیے قرضوں کی ان بھاری ادائیگیوں کو پورا کرنا ایک چیلنج بلکہ ناممکن ہوگا۔ اس لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان فوری طور پر اپنے وسائل کو متحرک کریں اور اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے دوست ممالک سے رجوع کریں۔
ایک ٹاسک فورس کے ذریعے تمام سرکاری اداروں جیسے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)، پاکستان اسٹیل ملز، یوٹیلیٹی کمپنیاں وغیرہ کو ایک ہی کمپنی کے تحت لایا جائے۔ اگر ان اداروں کو منافع بخش طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا، تو پھر ان اثاثوں کو فروخت کرکے ان سے آمدنی پیدا کرنے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں۔ تاہم، انہیں منافع بخش بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے اور مستقبل کی حکمت عملی کے طور پر قرض کی ادائیگی کے لیے ان فاضل فنڈز کو استعمال کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
یونیسیم ممبران نے یہ بھی کہا کہ ٹیکسوں میں اضافہ اس کا حل نہیں ہے کیونکہ یہ قلیل المدتی ہو گا اور اس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید کم ہو جائے گی، نتیجتاً معیشت کا حجم مزید سکڑ جائے گا۔
حکومت کو اس طبقے پر ٹیکس متعارف کروانے کے دوسرے طریقے تلاش کرنے چاہئیں، جو اس بوجھ کو برداشت کر سکتے ہیں، جیسے کہ وہ افراد اور کاروبار، جن کی خالص آمدنی 10 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ ہے۔ان طبقات کے لیے ٹیکسوں میں اضافے کی بجائے قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے ایک خصوصی یک وقتی ٹیکس پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تمام آمدنی کو قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے ایسکرو اکاؤنٹ میں جانا چاہیے۔حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے فنانسنگ اسکیم متعارف کرائے تاکہ وہ اپنی غیر ملکی کرنسی ہولڈنگز کا رخ موڑ سکیں اور بانڈز اور سرٹیفکیٹس وغیرہ کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔حکومت کو قلیل مدت سے طویل مدت تک قرضوں کو ری شیڈول کرنے کا امکان بھی تلاش کرنا چاہیے۔ ری فنانسنگ کے ذریعے یا خلیج تعاون کونسل (GCC)، ترکی اور چین جیسے دوست ممالک سے تازہ فنڈنگ کے ذریعے واپسی کی مدت کو بڑھایا جائے۔ یونیسیم کونسل کے اراکین نے شوکت حسن کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تعاون کرنے اور سن کے رہنما اصولوں پر عمل کرنے اور اس کی مثبت توجہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ آئی ایم ایف کے بغیر معیشت کو ٹریک پر واپس لانا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر)، انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی)، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایس ایم ای ڈی اے)، نیشنل پروڈکٹیوٹی آرگنائزیشن (این پی او) اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کے تعاون سے درآمدی سامان کی ملکی سطح پر متبادل اشیاء تیار کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو بحیثیت قوم اس چیلنج کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے نفاذ کے بعد، ایران نے صرف روٹی اور ٹماٹر کا سالن کھا کر اور اپنے تیار کردہ کپڑے سے بنے ملبوسات پہن کر سادہ زندگی کو اپنایا۔
چھوٹے تاجروں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس سلسلے میں ایک اجلاس بلانے اور خام مال، پیکنگ میٹریل، ضروری سامان اور ادویات کی درآمد کے لیے صنعتوں کے مسائل کے حل کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی تجویز بھی دی۔ایس ایم ای بینک کو ایگزم بینک میں ضم کیا جانا چاہیے نہ کہ نیشنل بینک آف پاکستان میں جیسا کہ عندیہ کیا گیا ہے۔ ایگزم بینک اور ایس ایم ای بینک مشترکہ طور پر ایسکرو اکاؤنٹس کو فروغ دے سکتے ہیں اور ایس ایم ای یونٹس کے فراہم کنندگان کے لیے قرض کا بندوبست کرسکتے ہیں۔اراکین نے پڑوسی ممالک خصوصاً چین کے ساتھ بارٹر ٹریڈ )مال کے بدلے مال( کی تجویز بھی پیش کی جہاں موخر ادائیگیوں پر کرنسی سویپ کے معاہدوں میں کیمیکلز، پلاسٹک کے دانے، مصنوعی یارن اور دیگر خام مال کی درآمد پر خصوصی زور دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہمیں ایران کے ساتھ بھی اس سمت میں کام کرنا چاہیے۔
آخر میں، اجلاس کے شرکا نے ان مسائل پر قابو پانے میں حکومت کی مدد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سب مل کر ان مشکل کاموں کو حل کریں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News