Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

تعلیم ایک عیاشی بن چکی ہے؟

Now Reading:

تعلیم ایک عیاشی بن چکی ہے؟

نئے تعلیمی سال کے قریب آتے ہی کوئٹہ میں والدین کو مہنگائی اور تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کے نتیجے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تمام والدین ملک میں مہنگائی کی حالیہ لہر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح، جب لوگ اپنے ماہانہ گھریلو اخراجات کا دوبارہ حساب لگا رہے ہیں اور ان میں کمی کر رہے ہیں، تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسوں نے والدین کو اپنے بچوں کے اسکول بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

سریاب روڈکے رہائشی محمد علی نے بول نیوز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے تین بچوں کو شہر کے ایک معروف سکول میں داخل کرایا گیا، ہر بچے کی ماہانہ فیس 11 ہزار روپے تھی۔ اس فیس میں دو ماہ قبل مزید دو ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ ’’اس فیس میں بجلی کے استعمال کے چارجز بھی شامل ہیں۔ تاہم، میری بیٹی نے چند ماہ قبل مجھے بتایا تھا کہ کلاس روم میں گرم موسم میں اسکول کا پنکھا ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے ‘‘۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ ’’میں نے گھر پر اس کے بارے میں بات کی کہ اخراجات کیسے آسمان کو چھو رہے ہیں اور ہمیں ایک نئے اسکول کی تلاش کیسے شروع کرنی چاہیے ‘‘۔ تاہم اس پر’’بچوں نے اتنا شور مچایا کہ ہم اچانک دوسرے اسکول میں کیسے داخلہ لے سکتے ہیں؟‘‘

Advertisement

انہوں نے بتایا کہ ’’ مجھے اپنے بچوں کو یہ سمجھانا مشکل ہو گیا ہے کہ میں اپنی 55 روپے تنخواہ سے اسکول کی اضافی فیس ادا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی فیسوں کے نتیجے میں والدین اسکول کے متبادل اختیارات پر غور کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ایک اور رہائشی احسن اللہ نے بتایا کہ اس نے حال ہی میں اپنے بچوں کو کوئٹہ کے ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں منتقل کیا ہے۔

اس بابت ان کا کہنا ہے کہ’’میری بیٹی نے کئی سالوں تک اس اسکول میں تعلیم حاصل کی، اور کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ اچانک کیوں چھوڑ رہی ہے۔ میں نے بچوں کو ایک مختلف اسکول میں منتقل کر دیا ہے۔ جہاں ماہانہ فیس 21ہزار روپے سے کم کر کے 9ہزار روپے ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے میرے کاندھوں سے بہت بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ’’ تعلیمی اخراجات میں کمی نے تعلیم کے معیار کو بھی متاثر کیا۔‘‘ اگرچہ ایک فرق ہے، لیکن کیا اس کا کوئی اور حل ہے؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئٹہ میں نجی اسکولوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ” ہمارے زمانے میں بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھ کر بھی اچھے نمبر حاصل کرتے تھے۔ تاہم، اب سرکاری اسکولوں کے ناگفتہ بہ حالات  کی وجہ سے انہیں نجی اسکولوں میں تعلیم دینا ضروری ہو گیا ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کریں جب کہ دوسرے ان سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘

شہباز ٹاؤن کے رہائشی منصور احمد کے بچے شہر کے ایک معروف نجی اسکول میں زیر تعلیم تھے لیکن اب اس کی فیسیں آسمان کو چھُو رہی ہیں۔

Advertisement

منصور احمد کا دعویٰ ہے کہ ٹیوشن فیس کے علاوہ اضافی اخراجات ہیں۔ اسکول میں ایسے فنکشن ہوتے ہیں جہاں طلباء ملتے ہیں، اور پھر انہیں سماجی اجتماعات جیسے کہ سالگرہ کی پارٹیوں میں شرکت کرنی چاہیے۔ اس سب پر پیسہ خرچ ہوتا ہے، اور ان اضافی اخراجات اور فیسوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

جب منصور نے فیس کے بارے میں اسکول انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ روپے کی نسبت ڈالر کی قدر بڑھنے سے عمارت کا کرایہ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے فیسوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ماہ ایک نیا اضافہ ہوتا ہے۔ پہلے کہا گیا تھا کہ ہر سیشن کے لیے نئی کتابیں درکار ہوں گی۔”ہم نے انہیں بتایا کہ گھر میں بڑے بچوں کے لیے ایک ہی کورس کی کتابیں موجود ہیں اور باقی دو بچے انہیں استعمال کریں گے، تو انہوں نے کہا نہیں، کورس تھوڑا مختلف تھا۔ پھر مشورہ دیا گیا کہ وہ یونیفارم اسی جگہ سے لیں جہاں سے وہ کتابیں لیتے ہیں۔ یہ کتابیں اور یونیفارم ٹیوشن میں شامل نہیں ہیں۔ ‘‘ منصور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے زور دے کر کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ آدھا سال پڑھنے کے بعد انھیں کہاں داخلہ ملے گا، ان کے دوست کیا کہیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ وہ اپنی جگہ درست ہیں لیکن میں نے اپنا مقدمہ بھی آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ اسکول کی فیس کا حساب قانونی ڈھانچے کے مطابق ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے ان چیزوں پر اعتراض کیا اور فیس ادا نہ کی تو بچوں کو نکال دیا جائے گا۔‘‘

نواں کلی کے رہائشی شاہنواز علی نے بتایا کہ ان کے پانچ بچوں کے اسکول کے ماہانہ اخراجات 21 ہزار روپے ہیں۔جس میں آپ کو اسکول وین کا کرایہ بھی شامل کرنا چاہیئے، جو کہ 10ہزار روپے ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ بہت سے والدین اس رقم کو ادا کرنے سے قاصر ہیں، جس سے مہنگائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں لوگوں کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔

سماجی کارکن رضیہ سلطانہ کے مطابق، کووِڈ 19 کے بعد، نجی اسکولوں میں فیس کے ڈھانچے میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا، لیکن کسی بھی سرکاری ادارے یا عدالت کی جانب سے ان کو جواب دہ نہیں ٹھہرایا جاتا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سیکرٹری ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے پاس نجی اسکولوں کی فیسوں کو چیک کرنے کے لیے ایک طریقہ کار ہونا چاہیے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ ”اب کورس کی کتابوں، اسکول کی دیگر اسٹیشنری اشیاء والدین پر مہنگائی کا ایک اور بم ہے،اور ہماری تنخواہ اس کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سی پیک دونوں ممالک کے لیے اہم منصوبہ ہے، ڈی سی ایم چینی سفارتخانہ
بچوں کی نشوونما میں کمی، وزیر اعظم کی زیرصدارت عالمی ماہرین کا اعلیٰ سطحی اجلاس
وزیر اعلیٰ پنجاب کا کرایوں میں کمی یقینی بنانے کا حکم
نان فائلرز کی سمیں بند کرنے کے معاملے پر جوائنٹ ورکنگ گروپ تشکیل
آرمی چیف سے پاکستانی ہاکی ٹیم کی ملاقات
مصالحہ دار چپس کھانے کے مقابلے میں امریکی نوجوان ہلاک
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر