ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹی بی کورونا وائرس سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوئی ہے.
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ٹی بی کے عالمی دن کے موقع سیمینار کا انعقاد کیا گیا، مقررین نے ٹی بی سے نمٹنے لئے آگاہی پر سرمایہ کاری پر زور دیا۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی نے سیمینار کی میزبانی کی، جب کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب ڈاکٹر ہارون جہانگیر، ڈبلیو ایچ او پاکستان کے نیشنل پروفیشنل آفیسر (ٹی بی) خواجہ لئیق احمد اور پنجاب ٹی بی کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر سرمد وقار صدیقی نے خطاب کیا۔
خواجہ لئیق احمد نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے تقریباً 6 لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ علاج کی دستیابی کے باوجود ایک سال میں اس سے 46,000 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحت کا شعبہ تنہا ٹی بی سے نہیں لڑ سکتا، اس بیماری کے ساتھ بہت سے سماجی اور اقتصادی رکاوٹیں منسلک ہیں۔
ڈاکٹر سرمد وقار صدیقی نے طلباء کو ٹی بی کی علامات کے بارے میں آگاہ کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی نے کہا کہ ٹی بی کے مریضوں کو اکثر سماجی اور معاشی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے صحت کے نظام سے ان کے رابطے میں تاخیر ہوتی ہے جس میں بدنامی کا خوف اور سماجی تعاون کی کمی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی سی یو میڈیکیئر سوسائٹی اور ڈیزیز اویئرنس سوسائٹی طلباء میں مختلف بیماریوں کے خلاف بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر ہارون جہانگیر خان نے کہا کہ ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا مقابلہ صحت کا شعبہ تنہا کر سکتا ہے، ٹی بی اور دیگر بیماریوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
بعد ازاں وائس چانسلر نے ٹی بی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ایک آن کیمپس واک کی قیادت کی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News