طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانی خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اسی طرح دارالحکومت کابل کے بازاروں اور مارکیٹوں میں خواتین کو برقع پہننے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب افغانی ورکنگ وومین بھی بہت سی پریشانی سے دو چار ہیں، افغانستان میں خواتین صحافیوں کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں افغان طالبان حکومت کی جانب سے مزید پابندیاں عائد کی گئی ہے جس سے انہیں مستقبل کے حوالے سے خدشات سے دوچار ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق خواتین رپورٹرز کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان حکام پریس کانفرنس میں جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ، امریکی مندوب مقرر
صحافی امینہ حکیمی نے بتایا کہ وہ دو جگہ پریس کانفرنس کی کوریج کے لیے گئیں مگر انیں اجازت نہیں دی گئی، خاتوں صحافی کا کہنا تھا کہ ایک جگہ کابل کے گورنر کی تقریب تھی جبکہ دوسری تقریب وزارت معدنیات اور پیٹرولیم کی جانب سے منعقد کی گئی تھی۔
ایک اور صحافی خاتون سہیلہ یوسفی نے کہا کہ افغانستان میں میڈیا کی آزادی سخت پابندیوں کی زد میں ہے اور اس صورتحال کے جاری رہنا رپورٹرز خاص طور پر خواتین رپورٹرز کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنے گا۔
ایک اور رپورٹر نظیفہ احمدی نے کہا کہ ان کو چاہیے کہ ہمیں خبروں کے لیے ایسی تقاریب میں جانے دیں جہاں سے ہم نیوز رپورٹس بنا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کا کابل میں خواتین کو برقع پہننے کا حکم، جگہ جگہ پوسٹر آویزاں
انہوں نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین صحافیوں کو مختلف تقاریب کی کوریج کی اجازت دی جائے اور کام کرنے دیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست میں طالبان نے کابل کا کنٹرول حاڈل کرنے کے بعد خواتیں پر بہت سے پابندیاں عائد کی ہیں، طالبان کے پہلے دور حکومت میں خواتین پر برقع پہننے اور محرم کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کا حکم تھا۔
چند روز قبل طالبان نے خواتین کے ملبوسات کی دکانوں پر موجود ڈمیوں کے سر الگ کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
اس کے علاوہ طالبان نے ملک بھر میں خواتین کے حماموں پر بھی پابندی لگائی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News