Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کوہستانِ صفّہ، اصفہان کی بلندیوں کی تلاش کا سفر

Now Reading:

کوہستانِ صفّہ، اصفہان کی بلندیوں کی تلاش کا سفر

ہم دوپہر کا کھانا شام کو کھانے کیلئے کسی ریسٹورنٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آرمینیائی چرچ سے نکل کر آذر روڈ پر پر آگئے ۔ شمال کی جانب ہم عباس آباد روڈ کو پار کرتے ہوئے عندلیب ،نگارستان اور روز(گلاب) کے قریب ایک ریسٹورنٹ کے پاس پہنچے ۔ غالباً یہ فرنو کیفے اینڈ ریسٹورنٹ تھا۔ بھوک چمک چکی تھی۔ ریسٹورنٹ میں سیر ہو کر کھانا کھایا اور باہر نکل آئے۔ اب ہم اصفہان کے پہاڑ کی بلند چوٹی دیکھنے جا رہے ہیں۔
اصفہان میں تین پہاڑی سلسلے ہیں اور یہ آدھے جہان کا درجہ رکھنے والا شہر تینوں پہاڑی سلسلوں کواپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ ہماری منزل کوہِ صفّہ ہے۔ یہ پہاڑ اصفہان شہر کے جنوب میں واقع ہے مگر آپ یہ نہ سمجھ لیجیئے گا کہ یہ پہاڑ اصفہان شہر کی جنوبی سرحد ہے۔ اس پہاڑ کی دوسری طرف بھی شہر ہے اور یہ شہر بھی اتنا ہی بڑا لگتا ہے جتنا بڑا ہمیں اصفہان لگتا ہے۔یہ پہاڑ کوہِ دونبہ کے جنوب مشرق اور دریائے زایندہ کے جنوب میں واقع ہے۔ ایک روایت کے مطابق کوہِ صفّہ کا نام عربی سے لیا گیا ہے جس کا مطلب چبوترہ، بنچ یا بیٹھنے کی اونچی جگہ ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے احاطے میں ریاض الجنتہ سے ملحق حضرت علی کے گھر کے سامنے ایک چبوترہ اب بھی موجود ہے، جہاں طلب علم کیلئے آنے والے اصحاب آکر بیٹھتے تھے۔ اس لئے ان صحابہ کو اصحابِ صفّہ کہا جاتا ہے۔ تاہم اس پہاڑ کے نام کے معانی کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ اس نام کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی ہے کہ اس پہاڑ پر ایک صوفی بزرگ میر علی صفّہ عبادت کرتے تھے اس لئے اس پہاڑ کا نام ان کے نام پر پڑ گیا۔اس بزرگ کا زمانہ صفوی بادشاہ شاہ سلیمان اول کا دور بتایا جاتا ہے۔
شاہ سلیمان اول صفوی 1648ء میں پیدا ہوا اور 1666ء میں 18 سال کی عمر میں تخت نشیں ہوا۔ شاہ سلیمان اول، شاہ عباس صفوی دوم کا بیٹا تھا اور اس کی والدہ کانام نکہت خانم تھا۔ شاہ سلیمان کے دور میں اس نام کی بزرگ کی روایتی شہادتیں ملتی ہیں مگر ایسی کوئی تاریخی شہادت دستیاب میں۔ کوہِ صفّہ کو کوہستان صفہ بھی کہاجاتا ہے۔ صفہ کا لفظ خالص، مسرت وشادمانی اورلطف کے معنی بھی استعمال ہوتے ہیں۔فارسی میں صفہ کو سپہ یا سپاہ کے ہم معنی بھی کہا جاتا ہے۔ گویا اسے فوج کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم اب کوہِ صفہ کی طرف چل پڑے ہیں۔ ہم آذر روڈ پر چلتے ہوئے دریائے زایندہ کو آذر پُل کے ذریعے عبور کرتے ہیں۔ اب ہم توحید اسٹریٹ پر چل رہے ہیں۔ آگے ہمارے بائیں طرف کوچۂ ملا قدیر ہے۔ جبکہ آگے دائیں جانب سوخان ساریان نامی لینگوئج اسکول ہے۔ کچھ دور چلنے کے بعد ہم بائیں جانب کو مڑجاتے ہیں۔ اسی طرف کو ہی کوچۂ خوشاب ہے۔ ہمیں اپنا ہی خوشاب یاد آ رہا ہے۔ آگے ہم دروازۂ شیراز پر پہنچتے ہیں۔ ہمارے الٹے ہاتھ پر آزادی اسکوائر ہے مگر ہم سیدھے ہاتھ پر مڑ جاتے ہیں۔ ہمارے سیدھے ہاتھ پر گلِ سنگ فلاور اسٹور ہے۔ واہ “گلِ سنگ” کیا اصطلاح ہے۔ ایسی اصطلاح بنانے اور استعمال کرنے کا حق ایران بلکہ اصفہان کو ہی حاصل ہے۔ ورنہ اگر ہم اپنی زبانوں میں پتھر کے پھول کی اصطلاح بنانے اور استعمال کرنے لگے تو ہمیں دماغی معائنے کے مشورے دیئے جائیں گے۔ یہاں تو پتھر کے پھولوں کا پورا اسٹور ہے۔اب ہمارے دائیں جانب اصفہان یونیورسٹی برائے میڈیکل سائنسز ہے۔ اس کے بعدبائیں جانب کو اصفہان ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل کالج آتا ہے۔ اس کالج سے آگے ہمیں امام جعفر پوسٹ آفس نظر آتا ہے۔ یہاں سے سیدھے ہاتھ پر صفّہ ایکسپریس وے پر گاڑی مڑ جاتی ہے۔ یہ ایک بڑی شاہراہ ہے۔ اور یہاں پر اچھا خاصا ٹریفک نظر آرہا ہے۔


Advertisement
ہماری گاڑی صفّہ روڈ پر دوڑ رہی ہے۔ہمارے ایک طرف خانوادہ اسپتال اور دوسری جانب الزہرہ یونیورسٹی اسپتال ہے۔اب پورا ٹریفک جام لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا اصفہان شہر اسی صفّہ بلیوارڈ پر آگیا ہے۔ سڑک پر ہزاروں گاڑیاں رینگ رینگ کر چل رہی ہیں۔ جتنا سفر ہم نے ریسٹورنٹ تک کیا تھا۔ لگتا یہ کہ سفرتو بہت کم رہ گیا ہے مگر وقت زیادہ لگ سکتا ہے۔ آج جمعہ کا دن ہے۔ اصفہان میں جمعہ کے روز سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ ہو سکتا
ہے کہ ہفتہ وار چھٹی کے روز سارا شہر تفریح کیلئے کوہِ صفّہ کا رُخ کر چکا ہو۔ یہ درست ہے کہ ایران تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو انقلاب کا تجربہ کر چکا ہے اور گزشتہ چار عشروں سے زائد عرصے سے عالمی پابندیوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ مگر آپ کو اس ملک میں بھکاریوں کی بھیڑ نہیں ملے گی۔ یہاں کسی ماسٹر پلان کے بغیر شہر نہیں ملیں گے۔ شہروں میں افراد اور گاڑیوں کا بے ہنگم پن نہیں ملے گا۔انقلاب سماج کی تطہیر کرتا ہے۔ اگر ایران انقلاب کا تجربہ نہ کر چکا ہوتا تو اسے انقلاب کے بعد جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، وہ ان حالات میں اپنی خودمختاری کو برقرار نہ رکھ سکتا۔ ایران دنیا کی 18ویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس لئے سڑکوں پر ٹریفک کے بڑھ جانے وہ افراتفری اور بے ہنگم پن پیدا نہیں ہوتا جہاں طبقاتی تقسیم بہت گہری ہوتی ہے۔ جہاں قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ اشرافیہ کا راج ہی قانون ہوتا ہے۔
ہم گاڑیوں کے رش میں اطمینان بخش سست رفتاری سے آگے بڑھتے رہے۔ اب ہماری گاڑی ہزار جریب ایونیو پر چل رہی ہے۔ہمارے سیدھے ہاتھ پر مہاجر ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے۔ اب ہم کوہِ صفّہ کی طرف مڑ چکے ہیں۔ ایک طویل وعریض پارک کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ پارک اور پہاڑ سطح سمندر سے دو ہزار257 میٹر بلند ہے۔ گویا آپ دامنِ کوہ میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں بہت بڑے رقبے پر درخت لگائے گئے ہیں جو چیڑ، شاہ بلوط اور بیاڑ کے لگتے ہیں۔ بہت دراز درخت ایک دوسرے کے بہت قریب لگائے گئے۔ یہ بظاہر کوئی قدرتی باغ یا جنگل محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہاں ہزاروں درخت لگائے گئے پھر اُن کی نگہداشت کی گئی۔ کیونکہ یہاں درخت تو موجود ہیں ۔زمین پر گھاس کہیں کہیں اور بہت کم کم نظر آتی ہے۔ اچھے خاصے رقبے پر تو گھاس نظر ہی نہیں آتی۔ البتہ درختوں کی ہریالی پورے جوبن پر ہے۔ ہمارے ہاں شمالی علاقوں میں بھی ماحول تقریباً ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اگر آپ اسلام آباد سے گلگت کا سفر کر رہے ہوں تو سبزہ، ہریالی اور جنگلات آپ کو خیبرپختونخوا کے اضلاع میں ہی ملیں گے۔ پھر جوں جوں آپ زیادہ بلندی کی طرف بڑھتے ہیں، پہاڑوں سے درخت اور ہریالی غائب ہونے لگتی ہے اور پہاڑوں کے نشیبی علاقوں میں جنگلات، درخت، گھاس اور ہریالی نظر آتی ہے۔چلاس سے آگے پہاڑ بالکل چٹیل نظر آتے ہیں۔ آپ شاہراہِ قراقرم این 35 پر سفر کریں تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ بلوچستان میں آواران سے تربت کا سفر کر رہے ہیں۔
کوہِ صفّہ بھی ہمارے کوہِ سلیمان اور گوادر اور مکران کے پہاڑوں جیسا معلوم ہوتا ہے۔ کوہِ صفّہ میں چونے کا پتھر عام ملتا ہے۔ یہاں سیپیاں اور گھونگے بھی عام ملتے ہیں۔ کروڑوں برس پہلے جہاں ہر طرف سمندر رہا ہوگا، وہاں سمندری حیاتیات کی باقیات بہرحال ملیں گی۔ یہاں ہڈی یا کھال سے بنے ہوئے بیرونی پرت کے ڈھانچے بھی ملتے ہیں۔ سمندری خول والے جانوروں کی ہڈیاں بھی اس پہاڑ میں پائی جاتی ہیں۔ ایسے جاندار نمکین پانی میں رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے، جہاں سمندر رہا ہوگا وہاں نمکین پانی اور نمکین پانی کے جانور بھی رہے ہوں گے۔ یہ خطہ ایک زمانے میں جراسک پارک رہا ہوگا اور یقیناً یہاں ڈائینوسارز بھی رہے ہوں گے۔ اس عہد کے خاتمے کے بعد اس کی علامات اور نشانیاں بھی بچ رہی ہوں گی۔
کوہ صفّہ کا پارک 248 ایکڑ رقبہ پر بنایا گیا ہے۔ ہم اس پارک کے پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں وہاں پہنچنا ہے جہاں سے ہم نے کیبل کار کا سفر کرکے کوہِ صفّہ کی چوٹی پر پہنچنا ہے۔ (جاری ہے)

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
شہریار چشتی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایڈوائزری کمیٹی کے رکن منتخب
آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ترک بری افواج کےکمانڈر کی ملاقات
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ترک لینڈ فورسز کے کمانڈر کی ملاقات
ضلع خیبر میں سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، 4دہشتگردہلاک
حکومت نےآئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری کر دی
جس نےبندوق اٹھائی اس سےسختی سےنمٹیں گے، میرسرفراز بگٹی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر