لاؤنج میں کچھ دیر بعد بیٹھنے کے بعد کُوچ کا اعلان ہوا۔ مسافر جہاز کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہم بھی ساتھ چل دیئے۔ ہمیں نہ دائیں طرف کی نشست ملی اور نہ بائیں طرف کی۔ ہمیں جہاز کے درمیانی نشستیں دی گئیں۔ ویسے بھی رات کو جہاز کے باہر کیا دیکھا جا سکتا ہے؟ صرف ٹیک آف اور لینڈنگ کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟ کچھ دیر بعد جہاز نے ٹیک آف کیا اور ہم آسمان کی پناہ میں چلے گئے۔ ہم نے ایک ہزار 916 کلومیٹر کا فضائی سفر کرنا ہے۔اس کیلئے ہم سوا تین گھنٹے سے کچھ زیادہ ہی فضا میں رہیں گے۔اگر ہم گاڑی پر سفر کر رہے ہوتے تو یہ فاصلہ ایک ہزار کلومیٹر اور بڑھ جاتا۔ جہاز میں مسافروں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ بیس سال پہلے جب ہم کراچی سے تہران جا رہے تھے تو جہاز تقریباً خالی تھا۔
کچھ دیر بعد فضائی میزبانوں نے کھانے کی ٹرالیاں لے کر مسافروں کی نشستوں کا رُخ کیا تو مسافروں نے کھانے کی میزیں سیدھی کرلیں۔ کھانا حسبِ طلب تھا مگر کھانے کے بعد چائے نہیں دی گئی بلکہ چائے مانگنے پر بھی انکار کر دیا گیا۔ منظر نقوی صاحب غصہ میں آگئے مگر انہوں نے غصے کے اظہار سے گریز کیا۔ البتہ غصے میں اپنی جیب سے وولٹ نکال کر سامنے سیٹ کی جیب میں رکھ دیا۔ غصہ تو ہمیں بھی آ رہاتھا مگر ہم نے یہ طے کیا تھا کہ کراچی پہنچنے پر ایئرپورٹ سے گھر پر فون کرکے چائے کیلئے فریاد کریں گے۔
کراچی ایئرپورٹ پر جہاز فضاء سے زمین پر اُترا تو گھر پہنچنے کے احساس کی طمانیت دل کو سرشار کر رہی تھی۔ ایمیگریشن کے مرحلے سے گزرنا تکلیف دہ اور پھر بیلٹ پر پہنچ کر سامان حاصل کرنے کا مرحلہ خاصا حوصلہ شکن تھا۔ اب خود پر غصہ آ رہا تھا کہ دستی سامان کو ہاتھ میں ہی کیوں نہ رکھا۔ بالآخر یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا۔ ہم نے سامان سنبھالا اور ایئرپورٹ کی حدود سے باہر آگئے۔ منظرنقوی، اویس ربانی اور علی زین نقوی کو خدا حافظ کہا۔ میرے بیٹے سرفراز خان مجھے ساتھ لے کر گھر چل دیئے۔ اصولی طور پر تو سفر کا حال اسی بات پرختم ہو گیا کہ ہم نے رات کو دو بجے کے بعد گھر پہنچتے ہی چائے پینی شروع کردی مگر نقوی صاحب نے جو وولٹ جہاز کی جیب میں چھوڑا تھا اس کی کہانی نے تو ایک الگ ڈرامائی رُخ اختیار کر لیا۔
میں گھر آتے ہی سوگیا۔ اگلے روز شام کو دفتر جانا تھا۔ حالانکہ اتوارتھا مگر ہم نے اتوار کو دفتر میں ہی رہنا ہوتا ہے۔
دوپہر کے بعد سوکر اُٹھا تو نقوی صاحب کو فون کیا۔ تو انہوں نے بتایا کہ انہیں جہاز میں چائے کی طلب اور چائے نہ ملنے پر اُن کا غصہ انہیں بہت مہنگا پڑا۔ اب تفصیل سنیئے انہیں چائے نہ ملنے کے غصے کے بعد میری طرح ایمیگریشن کے عملے کی سست رفتاری اور بے اصولی پر بھی غصہ آگیا۔ اب یہ غصہ دوچند ہوگیا۔ پھر سامان کے ملنے میں تاخیر سے غصہ اور بڑھ گیا اور یوں غصہ سہ چند ہوگیا۔ اب انہوں نے میری طرح یہ سوچ رکھا تھا کہ گھرجا کر چائے پیئں گے اور سو جائیں گے۔
نقوی صاحب ابھی ایئرپورٹ نہیں پہنچے تھے کہ اُن کا وولٹ تلاش کر لیا گیا تھا۔انہوں نے مظہر علی خان کو دس منٹ میں ایئرپورٹ پہنچ جانے کی خبر دی اور پھر دس منٹ میں پہنچ بھی گئے۔ جب انہوں نے مظہر علی خان کو اپنی آمد کی اطلاع دی تو مظہر علی خان کو اُن کی بتائے ہوئے مقام پر پہنچنے میں اندازے سے قدرے زیادہ تاخیر ہوئی مگر وہ رابطے میں تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں آ رہا ہوں۔ نقوی صاحب حیرت میں تھے کہ جب وہ اسی ایئرپورٹ کی حدود میں ہی ہے تو پھر آ ہی کیوں نہیں جاتا۔ پھر جہاں نقوی صاحب کھڑے تھے وہاں اچانک ایئرپورٹ کی لفٹ کا دروازہ کھلا اور اس میں سے وہیل چیئر پر ایک شخص نمودار ہوا۔ اس نے نقوی صاحب کی طرف اُن کا وولٹ آگے کرتے ہوئے کہا “سوری، مجھے دیر ہوئی اور آپ کو انتظار کرنا پڑا، میں مظہر علی خان ہوں”
سفر تمام شُد
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News