ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح سویرے چھ بجے نہا کر کمرے سے نکل آئے ۔ پہلے یہ طے ہوا تھا کہ ناشتہ اصفہان اور قم کے راستے میں کیا جائے گا۔ مگر پھر سب دوستوں کی یہ مشترکہ رائے ہوئی کہ ناشتہ یہاں ہوٹل میں کر لیا جائے کیونکہ جو وقت راستے میں لگنا ہے ہم اس سے بھی کم وقت میں یہاں ناشتہ کر کے فارغ ہوجائیں گے۔ ہم ناشتہ کر کے سامان اُٹھا کر باہر نکل آئے اور شٹل کے ذریعے اپنی گاڑی کی طرف چل دیئے۔ یہ اصفہان کی صبح ہے۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور ہشت بہشت محل کے قریب سے گزرے۔ آگے چہل ستون آیا، پھر امام موسیٰ کاظم اسپتال کے قریب گاڑی سیدھے ہاتھ پر مڑگئی۔ آگے پارک میدانِ لالہ آیا۔ہم اصفہان کے مختلف علاقے دیکھتے ہوئے آگےبڑھ رہے ہیں۔ہم اصفہان ایسٹرن بائی پاس کے راستے پر بائیں جانب کو مڑگئے۔ آگے اصفہان ایسٹ رنگ وے انٹر چینج آیا۔کافی چلنے کے بعد تقرُود کا پرانا آتشکدہ آیا۔ پھر کاروانسرائے سردھن سے گاڑی نے کاشان کے راستہ کا سفر اختیار کیا۔
آگے شاہراہ کے دائیں شاہ حسین صفوی کا مزار آتا ہے۔ پھر ہم پُلِ سرشک سے گزرے۔اب کاشان ایکسپریس وے پر گاڑی دوڑا رہے ہیں۔ یہ امیر کبیر ایکسپریس وے آ گیا ہے۔ پھر اسی نام کا ایک شہر آتا ہے۔ اسی کاشان ایکسپریس وے کا دوسرا نام خلیج فارس ایکسپریس وے بھی ہے۔ کبھی کبھار اس کا نام امیر کبیر ایکسپریس وے بھی بن جاتا ہے۔اب ہم کاشان پہنچ چکے ہیں۔ ٹول پلازہ سے گزر کر ہم کاشان کے کارواں سرائے پر گاڑی روک کر نیچے اُتر آتے ہیں۔ ہمیں یہاں پر کوئی کام نہیں ہے، ہم نے صرف کاشان کی سرزمین کو چُھونا ہے۔ ہم نے اس مٹی کو محسوس کرنا ہے جس نے ملتان کو نیل دیا اور اس سے نیل لیا، دونوں شہروں نے ایک دوسرے سے نیلے رنگ کا فیض لیا، اور پھر ہر سُو سب کچھ نیل ہو گیا۔ ملتان اور کاشان ہزاروں برس قبلِ مسیح سے نیلا رنگ استعمال کر رہے ہیں ۔اس کے بعد ملتان اور کاشان نے نیلے رنگ اور کاشی گری کو ملتان اور کاشان بنا دیا۔
ہمارے دوستوں نے یہاں پر مٹھائی کی خریداری کی۔ بڑی تہذیب کے شہروں کی ہر چیز کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔ ملتان سے کوئی آ رہا ہو تو اس سے کہا جاتا ہے کہ سوہن حلوہ لیتے آنا، کوئی داجل سے آ رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ کھیر پیڑے ساتھ لیتے آنا۔ اسی طرح کاشان جانے والوں سے کاک، کوماج، بادام سوختہ، حاجی بادام، کولمپہ اور لیقیمت کی فرمائش ہوتی ہے۔ ہمارے دوست جو فرمائشیں ساتھ لائے تھے۔ وہ انہیں پورا کرنے کیلئے مٹھائی کی دکان میں چلے گئے۔ میں نے بھی بچوں کیلئے مٹھائی لی۔ ہم سب پھر گاڑی میں آ کر بیٹھے اور قم کی طرف چل دیئے۔
آج ایران میں ہمارا ساتواں اور آخری دن ہے۔ کاشان سے قم جاتے ہوئے راستے میں بجلی گھر، صنعتی زون اور بڑے شاپنگ مال نظر آئے۔ ایران والے بتاتے ہیں کہ ایران 2021ء میں اوسطاً سالانہ 8 کروڑ6 لاکھ 20 ہزار کلو واٹس بجلی پیدا کررہا تھا۔ایران اتنی بجلی پیدا کرتا ہے جتنی دیگر ترقی یافتہ ریاستیں اور یورپی ممالک پیدا کر رہے ہیں۔ جب بجلی پیدا ہو رہی ہو تو صنعت و حرفت بھی ترقی کر رہی ہوتی ہے۔ اگر صنعت و حرفت ترقی کرے گی تو دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال بھی بنے گا۔ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ لوگوں کو ملک نہیں چھوڑنا پڑے گا۔تمام وسائل صرف ایک گانے، ترانے اور ڈرامے پر نہیں لگائے جائیں گے۔ انقلاب انسانی وسائل کی تربیت کرتا ہے۔ انقلاب طاقت کا خوف اور اس کا بھرم توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ انقلاب پورے معاشرے کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ انقلاب ایک حقیقی سماجی ترتیب اور عوامی ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ انقلاب بالا کو زیریں اور زیریں کا بالا کرکے دونوں کو ایک ہی سطح پر لے آتا ہے۔ انقلاب نے ایران میں صنعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ زراعت کے شعبہ میں جو ترقی کی، وہ بے مثال ہے۔ آپ ایرانی ساخت کے ٹریکٹر دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ زرعی آلات میں جدت کاری نے کئی ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایران زراعت میں امریکہ اور یورپی یونین کا ہم پلہ ہو چکا ہے۔ایران نے تنہا کردیئے جانے کے بعد بھاری مشینری کو ترقی دینے پر توجہ دی۔ پابندیوں کا شکار ممالک عراق جیسے بنا دیئے جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے امریکی حملوں کے بعدبغداد، تکریت اور موصل کو جلتے دیکھا انہوں نے تہذیب، تمدن مصنوعی ترقی اورگھڑی جانے والی شخصیت کے بُت کو بھی جلتے دیکھا ہوگا۔ مگر ایران شدید پابندیوں میں بُری طرح محصور کئے جانے کے بعد اپنے انقلابی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے آج دنیا کی طاقتور معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایران اپنے بچوں کو پڑھا رہا ہے۔ وہ غیروں اور دشمنوں کے بچوں کو نہیں پڑھا رہا۔ ایران فرقہ واریت کی سرزمین نہیں بنا۔ ایران کسی اور کے مفاد کیلئے اپنے ہی لوگوں کا مقتل نہیں بنا۔
کاشان سے چلتے ہوئے ہم قم کے بارے میں سوچنے لگے۔یہ شہر تہران سے 140 کلومیٹر شمال اور اصفہان سے 308 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ کاشان اور قم کا فاصلہ 108 کلو میٹر ہے۔ قم بھی ایران کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شہر پہلے کُم کہلاتا تھا بعد میں اس کا نام قُم پڑ گیا۔ 14ویں صدی عیسوی میں تیمور لنگ نے اس شہر میں بدترین نسل کُشی کر کے اسے تاراج کر دیا تھا۔ اس شہر کی آبادی 12 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ گزشتہ 13 صدیوں سے زائد عرصے سے اس شہر کی وجۂ شہرت یہاں پر معصومۂ قم سیدہ بی بی فاطمہ بنت امام موسیٰ کاظم کا مزار ہے جو اثناعشری مسلمانوں کے ساتویں امام کی صاحبزادی اور آٹھویں امام علی رضاء کی ہمشیرہ تھیں۔ اس شہر کی سب سے بڑی سوغات سوہان ہے۔ یہ ایک قسم کی ایرانی مٹھائی ہے اور قم میں سوہان کی دو سے ڈھائی ہزار کے قریب دکانیں ہیں۔ قم ایران کا ایک بڑا صنعتی شہر بھی ہے۔ یہ شہر پٹرولیم، پٹرولیم مصنوعات اور قدرتی گیس کا ایک بڑا علاقائی مرکز ہے۔ یہاں سے انزالی بندرگاہ تک ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔ ہمارے ملک کے گیلانی سید اسی بندرگاہ کے شہر سے آئے تھے۔ یہ بندرگاہ گیلان میں واقع ہے اور یہ بندرگاہ خلیج فارس کے کنارے پر نہیں بلکہ بحیرہ کیسپیئن کے کنارے پر واقع ہے۔ جو اس زمین پر کھارے پانی کی سب سے بڑی جھیل کہی جا سکتی ہے اور جس کے اردگرد کئی ممالک موجود ہیں۔ یہ بندرگاہ بھی ایک جزیرے پر بنائی گئی ہے جس کا نام میاں پوشتہ ہے۔ ہے نہ مزے کی بات؟ جھیل میں جزیرہ اور جزیرے پر بندرگاہ۔اسی طرح تہران سے قُم، اور قم سے ابدان تک ایک پائپ لائن بھی بچھائی گئی ہے جو خلیج فارس تک گیس لے جاتی ہے۔
قم شہر کے جنوب میں بعض ایسے قدیم آثار بھی ملے ہیں، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر چارسو قبلِ مسیح سے ایک ہزار سال قبل مسیح تک انسانی آبادیاں رہی ہیں۔ یہاں پر انسانی تہذیب کے ارتقاء کی ایسی نشانیاں ملی ہیں جن سے ایران میں تہذیب و تمدن کے مختلف ادوار کے بارے میں مختلف مباحث کو راہ ملی ہے۔ ہم دل ہی دل میں قم شہر کا اپنے اُچ اور ملتان کی قدیم تہذیب کا تعلق قائم کرتے ہیں مگر ملتان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ شہر تباہی اور بربادی کے ان گنت مناظر دیکھنے بعد آج بھی جہاں تھا وہیں ہے۔ (جاری ہے)
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News