جسٹس ارباب محمد طاہراسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق کل اکتیس دسمبر کو الیکشن کرائے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس ارباب محمد طاہر نے اسلام نآباد میں بلدیاتی انتخابات مؤخر ہونے کیخلاف پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی درخواست پر آج شام چار بجے تک محفوظ فیصلہ کیا اور کہا کہ کیس کا فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف درخواستیں منظورکرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قراردیا اوراکتیس دسمبر کو الیکشن کروانے کا حکم دیا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلدیاتی الیکشن ملتوی ہونے کیخلاف درخواستوں پرجسٹس ارباب محمد طاہرنے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں تحریکِ انصاف کے وکیل سردارتیموراسلم نے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل پی ٹی آئی کے دلائل
تحریک انصاف کے وکیل سردار تیموراسلم نے دلائل دیے کہ الیکشن سے صرف 11 دن پہلے یوسیز کی تعداد بڑھائی گئی، اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر حکومتی فیصلہ نہیں مانا۔ الیکشن کمیشن نے کہا موجودہ شیڈیول الیکشن پر نیا نوٹیفکیشن لاگو نہیں ہوگا۔
الیکشن کمیشن کا تفصیلی جواب عدالت میں پیش
الیکشن کمیشن کا تفصیلی جواب عدالت میں پیش کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی آئین کے آرٹیکل 140 A اور شق 219 میں ترمیم کی تجویزدی گئی۔
جواب میں کہا گیا کہ قانون میں ترمیم کا مقصد مرکز یا صوبائی حکومتوں کو الیکشن سے قریب قوانین میں ترمیم سے روکنا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کرانے متعلق آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ہم نے بروقت بلدیاتی انتخابات کا حکم دیا جو ہائیکورٹ نے کالعدم قراردے دیا۔ سیکشن 219 ایک کے تحت لوکل گورنمنٹ قوانین مدنظر رکھ کر الیکشن کروائیں گے۔
الیکشن کمیشن نے جواب میں کہا کہ جب الیکشن کی تیاری مکمل ہوتی ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قوانین میں تبدیلی سے بروقت الیکشن میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ سیکشن 219 ایک اورچارآپس میں متصادم ہیں۔ سیکشن 219 ایک لوکل گورنمنٹ قوانین کے تحت صوبائی اور مرکز میں بلدیاتی الیکشن کا مینڈیٹ دیتا ہے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے لیے 120 روزمیں بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہوتا ہے۔ مرکزی و صوبائی حکومتیں قوانین میں تبدیلی کرتی ہیں تو انتخابات کرانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اخراجات کی تفصیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی
پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے اپنا بوجھ عدالت پرڈالنے کی کوشش کی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کا کبھی نہیں کہا تھا۔ الیکشن کمیشن نے مجوزہ قانون سازی کا سہارا لیا۔
سردارتیمور اسلم ایڈووکیٹ نے کہا کہ صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث اسے قانون سازی نہیں، مجوزہ بل ہی کہا جائے گا۔
جسٹس ارباب محمد طاہرنے پوچھا کہ کیا الیکشن شیڈول کسی عدالت کے سامنے چیلنج ہوا؟ اگر چیلنج نہیں ہوا تو الیکشن شیڈول تو ابھی بھی موجود ہے۔
ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نہیں، بلدیاتی انتخابات کو مؤخرکردیا گیا تھا۔
سردارتیموراسلم نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ پورا شہر انتخابات کیلیے تیار تھا الیکشن کمیشن بھی 27 دسمبر تک راضی تھا جس پرعدالت نے کہا ہم آپ کی درخواست منظور کریں تو کیا کل الیکشن ہوجائیں گے؟
وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ پولنگ کی تاریج کل کے بجائے پرسوں رکھ لیں۔ کل خود الیکشن کمیشن نے کہا صرف پولنگ کا سامان تقسیم کرنا ہے۔ ایک دن پولنگ کا سامان تقسیم کرلیں پرسوں پولنگ ہوجائے۔ پولنگ کی تاریخ تو پہلے بھی الیکشن کمیشن نے آگے کی تھی۔
الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ وہ ہم نے کرسمس کی چھٹیوں کیلئے تاریخ آگے کی تھی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریری جواب وقت کی کمی کے باعث جمع نہیں کروا سکے۔ وزارت داخلہ نے آج ہی الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ رکھ لی ہے۔
جسٹس ارباب محمد طاہرنے اظہارِبرہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت اتنی نااہل ہو گئی ہے کہ تحریری جواب نہیں جمع کروا سکتی؟ ہم الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ معطل کردیتے ہیں آپ میٹنگ کرتے رہیں۔ کل آپ کی رضا مندی سے آج کا وقت رکھا گیا تھا۔ صبح سے وقت تھا اسی وقت میٹنگ کیوں رکھی گئی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صبح پہلے اور میٹنگز تھیں پھر جمعے کے فوری بعد کا وقت بلا تاخیر رکھا گیا۔
عدالت نے پوچھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ کی یقین دہانیوں کا کیاہوا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یونین کونسلز کی تعداد بڑھانا یا ترمیم کرنا وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔
جسٹس ارباب محمد طاہرنے پوچھا کہ اس سال کے دوران اس صوابدید کا کتنی بار استعمال ہو چکا؟ جس پر منور دُگل نے جواب دیا کہ اس سے پہلے جون میں یونین کونسلز بڑھائی گئی تھیں۔ آبادی بڑھنے کے بعد یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی گئی۔
عدالت نے کہا کہ مردم شماری 2017 کے بعد ہوئی نہیں کس بنیاد پرپتا چلا آبادی بڑھ گئی؟
ایڈیشل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی الیکشن ہوگئے اورکل ترمیمی بل ایک بن گیا تو ایک مسئلہ ہوگا، مئیر اور ڈپٹی مئیر کے پھر اُس صورت میں الیکشن ہی نہیں ہو سکیں گے۔ نیا ایکٹ تو پھرمئیر کے انتخاب کا پولنگ والے دن کا ہی کہے گا۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کے دلائل
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے درخواست گزار پی ٹی آئی رہنما علی نواز کے کنڈکٹ پر سوال اٹھا دیا۔ کہا کہ درخوست گزار کا اپنا کنڈکٹ بھی عدالت دیکھے۔ یہ رکن اسمبلی ہیں مگر وہاں جا کر اپنا کردار ادا نہیں کررہے۔ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی قانون سازی میں انہیں پارلیمنٹ ہونا چاہیے تھا۔
ڈی جی الیکشن کمیشن کے دلائل
ڈی جی الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے مختلف اقدامات کیے جس پرعدالت نے پوچھا کہ 30 جون کے بعد سے آپ نے کیا کیا پراسیس کیا؟ وہ بتا دیں۔ کیا بیلٹ پیپر پرنٹ ہو چکے ہیں؟ عملے کی تربیت ہو چکی؟
ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ جی بیلٹ پیپر بن چکے عملے کی تربیت بھی ہو چکی ہے۔
عدالت نے کہا بس پھر یہ بتا دیں کہ کتنے دن سامان کی ترسیل میں چاہییں؟ جس پرڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ سات سے دس دن میں پرانے شیڈیول پر الیکشن کروا سکتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سات سے دس دن کیوں؟ تیاری تو ساری ہوچکی تھی۔ ڈی جی نے جواب دیا کہ پولنگ کے لئے ہالز بکنگ وغیرہ دوبارہ کرنا ہوتی ہے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ چلیں پھر تو آپ کو دو دن چاہییں ہوں گے جس پرالیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں سیکیورٹی وغیرہ لینے کیلئے بھی وقت چاہئے ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News