Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ایشیا کپ ، پاک بھارت ٹاکرے کی یادیں

Now Reading:

ایشیا کپ ، پاک بھارت ٹاکرے کی یادیں

پاک بھارت ٹاکرا، ایشز سیریز سے بڑا ہوتا ہے، چونکہ یہ مقابلے دو طرفہ طور پر نہیں کھیلے جاتے، اس لیے سب کو ان مقابلوں کا شدت سے انتظار رہتا ہے اور اپنی  بالادستی کے لیے مقابلے کے دوران جذبات بھی غالب آجاتے ہیں ۔

جیسا کہ یہ دونوں ٹیمیں ایک بار پھر مدمقابل آرہی ہیں، ہم یہاں پچھلے 38 سالوں میں کھیلے گئے ایشیا کپ کے میچز پر نظر ڈالتے ہیں ۔

شارجہ 1984:

یہ افتتاحی ایشیاکپ کا آخری لیگ میچ تھا جو شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جارہا تھا، صرف تین ٹیمیں پاکستان، بھارت اور سری لنکا نے اس کپ میں شرکت کی۔ عملی طور پر بھارت یہ ٹورنامنٹ جیت چکا تھا کیوں کہ اس نے بھارت کو سری لنکا کو شکست سے دوچار کیا تھا جو پاکستان کو پہلے ہی شکست دے چکا تھا۔ لہذا پاکستان کو یہ میچ بڑے مارجن سے جیتنا ضروری تھا ورنہ ایشیا کپ بھارت کے نام ہوجاتا، اور ایک آسان فتح بھی پاکستان کو دوسری پوزیشن پر پہنچادیتا۔

بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے غلام پارکرکے رن آؤٹ ہونے تک 54 رنز کی شراکت کے ساتھ اچھی شروعات کی۔ اسکورنگ کی رفتار یقینی طور پر سُست تھی لیکن بلے باز وکٹ  پرجم گئے اور دلیپ وینگسرکر 88 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔  سریندر کھنہ نے بہترین بلے بازی کرتے ہوئے نصف سنچری مکمل کی اور جیسے ہی وہ 110 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو سندیپ پٹیل 43 رنز بناچکے تھے۔ سنیل گواسکر غیرمعمولی طور پر 5ویں نمبر پر بیٹنگ  کرتے ہوئے 36 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ ایک اچھی پچ پر بھارت نے4 وکٹوں کے نقصان پر 188 رنز بنائے۔ بظاہر یہ ہدف اتنا مشکل نہیں لگ رہا تھا۔ خاص طور پر کپل دیو کی غیرموجودگی کی وجہ سے یہ نسبتاً آسان تھا، کپل دیو گھٹنے کی انجری کی وجہ سے ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لے رہے تھے جب کہ عمران خان بھی پنڈلی کے فریکچر کی وجہ سے اس میچ میں شریک نہیں تھے۔ شائقین کرکٹ کے لئے یہ بڑے افسوس کا مقام تھا کہ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں دوعظیم آل راؤنڈرز کا آمنا سامنا نہ ہوسکا۔

Advertisement

جی ہاں، اس میچ میں جاوید میانداد کی عدم موجودگی تشویشناک تھی لیکن پاکستان کے پاس اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اچھی بیٹنگ لائن اپ موجود تھی۔ 23 رن بناکر سعادت علی کے رن آؤٹ ہونے کے بعد محسن خان نے مدثر نذر کے ساتھ  بہترین پارٹنر شپ بنائی اور مجموعی طور پر 69 رنز بنالئے۔ یہ وہ وقت تھا جب روی شاستری نے دونوں بلے بازوں کو ایک ایک رن کے فرق سے آؤٹ کرکے مخالف ٹیم کو بڑا دھچکا دیا۔ 125 رنز پر 4 کھلاڑیوں کے نقصان پر کپتان ظہرعباس  کریز پر موجود تھے۔ سلیم ملک کو بھارتی بولر سے 92  رنز پر پویلین واپس بھیج دیا۔ ایک اور کھلاڑی کے  نقصان کے باوجود پاکستان ہدف کے تعاقب میں رہا، لیکن پھر قاسم عمر بھی کریز پر زیادہ دیر تک جم نہ سکے۔ شاہد محبوب اور عبدالقادر بھی ایک ایک بال کا سامنا کرکے رن آؤٹ ہوگئے۔ اس وقت پاکستان 7 کھلاڑیوں کے نقصان پر 125 رنز ہی بنا پایا تھا ۔

قاسم عمر کی طرح ظہیرعباس بھی غیر متوقع طور پر آؤٹ ہوئے۔ سرفراز نواز بھی تنہا کچھ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پاکستان صرف 135 رنز بناسکا اور بھارت نے یہ میچ 54 رنز سے جیت لیا۔

ڈھاکا 1988:

دوسرے ایشیا کپ میں اس بار بنگلا دیش کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ایشین کرکٹ کونسل کی جانب سے براعظم میں کھیل کو فروغ دینے کےلئے اس بار ٹورنامنٹ کا انعقاد اسی ملک میں کیا گیا۔ بنگلا دیش اس وقت بھی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا ایسوسی ایٹ ممبر تھا اور یہ پہلا موقع تھا جب وہ لسٹ اے کیٹیگری میں شامل تھا۔ ٹورنامنٹ میں تمام ٹیمیں ایک دوسرے کا سامنا کرتی ہیں اور ٹاپ 2 ٹیموں کے درمیان  فائنل کھیلا جاتا ہے۔

اس بار بھی دو پرانے حریف مدمقابل تھے، یہ ’’ڈو اور ڈائی‘‘ کے مترادف میچ بن چکا تھا کیونکہ دونوں سری لنکا سے پہلے ہی ہار چکے تھے اور انہیں یہ میچ جیتنے کے لئے جان لڑانے کی ضرورت تھی ورنہ دونوں کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے امکانات تھے۔ اس لئے اس مقابلے کو سیمی فائنل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ میدان میں پہلے اترنے کا انتخاب کرتے ہوئے بھارت کو اس فیصلے  پر مایوسی کا سامنا  کرنا پڑا کیونکہ رمیز راجہ اور معین العتیق نے پہلی وکٹ گرنے تک 62 رنز بنا لئے تھے۔ رمیز راجا 33 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو معین نے سلیم ملک کے ساتھ  کھیل جاری رکھا۔ یہاں تک کہ اسکور کو 3 وکٹوں کے نقصان  پر97 تک پہنچا دیا۔  گرین شرٹس اس وقت مشکلات سے باہر آگئی جب ارشد ایوب نے عامر ملک کا شکار کیا جب کہ شعیب محمد، اور نوید انجم نے پاکستان کا اسکور 6 وکٹیں گنوانے کے بعد116 رنز تک پہنچایا۔ میچ کے43 ویں اوور میں 142 کے اسکور پر پاکستان کی اگلی وکٹ بھی گرگئی ۔ معین العتیق 38 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ ارشد ایوب نے اس میچ میں صرف 21 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔

نوجوت سنگھ سندھو محض 3 رنز کے اسکور پر پویلین لوٹ گئے لیکن اس کے بعد کرس سریکانت اور موہندر امرناتھ نے جم کر کھیلا اور اسکور کو 76 تک پہنچا دیا۔ جب عبدالقادر نے وینگسارکر کو ایل بی ڈبلیو کیا تو اس وقت پاکستان کے پاس اچھا موقع تھا۔ بھارتی ٹیم اس وقت 6 رنز پر 116 رنز بناسکی تھی۔ موہندر امرناتھ کے ناقابل شکست 76 رنز کی بدولت بھارت میچ جیتنے میں کامیاب رہا اور اسی لمحے پاکستان ایشیا کپ سے باہر ہوگیا۔

Advertisement

شارجہ 1995:

ایک بار پھر راؤنڈ رابن لیگ کی بنیاد پر یہ پاکستان کا پہلا میچ تھا جس میں بھارت پہلے ہی بنگلا دیش کو شکست دے چکا تھا۔ گرین شرٹس نے بیٹنگ کا انتخاب کیا، سعید انور اور عامر سہیل نے تیزی کے ساتھ  نصف سنچری بنالی۔ اس موقع پر بھارت نے 3 وکٹیں لے کر جوابی وار کیا۔ لیکن انضمام الحق نے  صورتحال پر قابو پاتے ہوئے اسکور کو 3 وکٹوں کے نقصان پر 133 تک پہنچادیا۔ وہ اس وقت زبردست فارم میں تھے اور بھارت کا سامنا بڑی بےخوفی سے کررہے تھے۔ انضمام الحق کو وسیم اکرم جیسا باہمت  ساتھی ملا تو دونوں نے مل کر اسکور میں 81 رنز کا اضافہ کیا، اس دوران انضمام 100 گیندوں پر 88 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس کے باوجود وسیم اکرم نے بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف 46 گیندوں پر 2 چھکوں کی مدد سے 50 رنز اسکور کرکے  رن آؤٹ ہوگئے، لیکن ان کی بہترین انفرادی کارکردگی کی وجہ سے ہی پاکستان 9 وکٹوں کے نقصان پر 266 رنز بنانے میں کامیاب ہوا۔ اب باری عاقب جاوید کی تھی جنہوں نے تیز رفتاری کو جاری رکھتے ہوئے  بھارت کی 4 وکٹیں صرف 37 رنزکر اڑا دیں۔ نوجوت سنگھ سدھو اور سنجے منجریکر انتہائی سست رفتاری سے مشترکہ طور پر اسکور کو 50 رنز تک لے کرجانے میں کامیاب ہوئے۔ اس میچ میں بھارت 169 رنزہی  بناسکا اور 97 رنز سے ہار گیا۔ اس میچ میں عاقب جاوید نے صرف 19 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔

کولمبو 1997:

بھارت نے پاکستان کو سیمنگ کنڈیشنز میں پہلے بیٹنگ کا موقع دیا لیکن سعید انور کے پہلے ہی اوور میں صفر پر پویلین واپس لوٹنے کے بعد گرین کیپس کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا کیوں کہ اگلے ہی اوور میں عامرسہیل بھی پویلین واپس لوٹ گئے اور پھرجب انضمام الحق پرساد کی گیند پر کیچ آؤٹ تو گرین کیپس 10 رنز پر 3 وکٹیں گنواچکے تھے۔ صرف 5 اوور بعد ہی بارش نے کھیل میں مداخلت کی تو میچ کو 33 اوورز تک محدود کردیا گیا۔دوبارہ میچ شروع ہوا تو ابھی 4 اوور مزید ہوئے تھے کہ دوبارہ بارش شروع ہوگئی، اور پاکستان بدنامی سے بچ گیا کیوں کہ پاکستان نے سلیم ملک اور رمیز راجہ کو بھی کھودیا تھا اور اس کا اسکور 5 وکٹ کے نقصان پر 30 رنز ہوگیا تھا اور پرساد کے 17 رنز کے عوض 4 وکٹیں حاصل کرنا بھی ضائع گیا کیوں کہ یہ میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تھا۔

ڈھاکا 2000:

پاکستان نے آغاز میں ہی تیز کھیل کا مظاہرہ کیا، سعید انور اور عمران نذیر نے 13ویں اوور میں 14 چوکوں کی مدد سے 74 رنز بنائے۔لیکن اجیت آگرکر اور انیل کمبلے پاکستان کے 103 رنز پر 4 وکٹیں گراچکے تھے تاہم محمد یوسف نے ٹیم کی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ کپتان اور وکٹ کیپر معین خان کے ساتھ انہوں نے 18 اوورز میں 92 رنز بنائے جس میں معین نے 46 رنز بنائے۔یوسف کو اس کے بعد عبدالرزاق کے ساتھ ایک اچھی شراکت بنانے کا موقع ملا جس نے جارحانہ انداز میں 21 رنز بنائے اور ٹیم کا اسکور 246 تک پہنچا دیا۔

Advertisement

یہ دن محمد یوسف کا تھا، جب انہوں نے پہلی ففٹی 90 گیندوں پر بنائی اور اگلی ففٹی کے لیے صرف 23 رنز پر بنائی اور وہ 94 رنز پر موجود تھے جب انہوں نے آخری گیند پر چھکا لگا کر اپنی شاندار سنچری مکمل کی۔ پاکستان کے 295 رنز کا تعاقب کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا تھا اور بھارت 75 رنز پر 4 وکٹیں گنوا چکا تھا جب کہ عبدالرزاق نے بھارت کے اہم بلے بازوں (سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ اور محمد اظہرالدین) کو پویلین کی راہ دکھاچکے تھے اور بھارت کی شکست واضح دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے بعد اجے جڈیجا کی باری آئی، انہوں نے رابن سنگھ کے ساتھ 49 جوڑے لیکن آدھی اننگز ختم ہونے تک اسکور بورڈ پر صرف 125 رنز تھے اور بھارت 5 وکٹیں گنواچکا تھا۔ جڈیجا وکٹ پر موجود رہے لیکن اس کے ساتھی بلے باز آتے اور جاتے رہے۔ حالانکہ انہوں نے 103 گیندوں پر 4 چھکوں کی مدد سے 93 رنز بنائے اور وہ آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی تھے۔ پاکستان نے بھارت کی پوری ٹیم کو 44 رنز کی کمی سے آؤٹ کیا جب کہ عبدالرزاق نے 29 رنز کے عوض 4 وکٹیں حاصل کیں۔

کولمبو 2004:

پاکستان نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کرتے ہوئے پہلے ہی اوور میں عمران نذیر کو کھودیا جس کے بعد شعیب ملک بیٹنگ کے لیے آئے۔ جب دوسرے اوپنر یاسر حمید 19ویں اوور میں آؤٹ ہوئے، تب تک وہ 105 کے اسکور میں سے صرف 31 رنز بنا چکے تھے تاہم دوسرے اینڈ سے شعیب ملک چھائے ہوئے تھے۔

ملک نے ایک بہترین اننگز کھیلی جس میں انہیں مکمل کنٹرول حاصل رہا۔ انضمام (34)، یوسف (29) اور رزاق (22) سب نے دوسرے اینڈ سے ان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن شعیب ملک قابو میں نہیں آرہے تھے۔

جب وہ 46ویں اوور میں آؤٹ ہوئے تو وہ پاکستان کے اسکور کو 277 تک پہنچاچکے تھے اور خود انہوں نے 127 گیندوں پر 143 رنز کی شاندار اننگز کھیلی جس میں صرف ایک چھکا لیکن 18 چوکے شامل تھے۔

یہ ان کی شاندار کارکردگی تھی جس کی وجہ سے پاکستان ایشیاکپ میں بھارت کے خلاف اپنا پہلا 300 رنز کا مجموعہ درج کرنے میں کامیاب رہا اور ٹیم مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹ کے نقصان پر 300 رنز بنانے میں کامیاب رہی۔ وریندر سہواگ کی صورت میں ایک بڑی امید کھونے کے باوجود بھارت نے ہدف پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ سچن ٹنڈولکر اور سارو گنگولی 13ویں اوور اسکور کو 79 رنز تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔

Advertisement

لیکن بھارتی کپتان کے پویلین واپس لوٹ جانے کے بعد راہول ڈریوڈ، یوراج سنگھ اور محمد کیف نے 29ویں اوور میں بھارت کو 5 وکٹ کے نقصان پر 151 تک پہنچا دیا تھا۔ سچن ٹنڈولکر نے بعد میں آنے والے کھلاڑیوں کی مدد سے یہ مزاحمت جاری رکھی لیکن 214 رنز کے مجموعی اسکور پر ٹنڈولکر 78 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تو بھارتی ٹیم ہدف کے تعاقب میں 8 وکٹ کے نقصان پر صرف 241 رنز ہی بناسکی۔

کراچی، 2008

پاکستان پہلی بار ایشیاکپ کی میزبانی کررہا تھا اور شعیب ملک اب اس ٹیم کے کپتان تھے۔ گروپ میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور شعیب ملک خود سلمان بٹ کے ساتھ اننگز کا آغاز کرنے آئے۔ اس جوڑی نے 22ویں اوور تک 90 رنز بناکر اچھی شروعات کی لیکن سلمان بٹ 35رنز بناکر آؤٹ ہوگئے جس کے بعد بھارت کو کوئی موقع نہ ملا کیونکہ یونس خان نے کپتان کے ساتھ مل کر بھارتی بولرز کی خوب ترگت بنائی اور درد کے باعث شعیب ملک کے میدان سے جانے سے قبل دونوں 129رنز کا اضافہ کرچکے تھے۔ بعد ازاں شعیب ملک دوبارہ میدان میں آئے اور بطور کپتان اپنی پہلی ون ڈے سنچری مکمل کی لیکن 41ویں اوور میں 119 گیندوں میں 125 رنز بنا کر ریٹائر ہوگئے۔ ان دونوں کے جانے کے بعد بھارتیوں نے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن مصباح الحق اور محمد یوسف کی جوڑی نے آخری 9 اوورز میں 76 رنز کا اضافہ کیا۔آف اسپنر شعیب ملک کی انجری کے باعث پاکستان کو ایک بولر کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جب عمرگل کو پٹھوں کے کھچاؤ کے باعث میدان سے باہر جانا پڑا تو یہ ایک تباہی پاکستان کی منتظر تھی۔ اگرچہ افتخار انجم نے گوتم گمبھیر کو جلدی ہی آؤٹ کردیا لیکن سریش رائنا اور سہواگ نے پاکستانی بولرز کو پریشان کرنا شروع کیا، البتہ سہواگ کو چوتھے ہی اوور میں موقع ملا جس کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا اور پھر جب ان کا بلا ایک بار چلتا ہے تو انہیں روکنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ سریش رائنا بھی بے رحمی سے پاکستان بولرز کی درگت بناتے رہے اور خاص طور پر جب ایک اچھی بیٹنگ وکٹ پر پاکستان کو فواد عالم، یونس خان اور سلمان بٹ سے تقریباً 12اوورز کروانا پڑے تو یہ میچ ویسے ہی بھارت کی طرف جاچکا تھا۔ دونوں بلے بازوں نے تقریباً 8 رنز کی اوسط سے 198 رنز بنائے جس میں سہواگ کے صرف 95 گیندوں پر 119 رنز شامل تھے جب کہ رائنا نے 69 گیندوں پر 84 رنز بنائے۔بعد ازاں، یووراج سنگھ کے 48 اور کپتان دھونی کے 26 رن کی بدولت بھارت نے 8 اوورز پہلے ہی میچ ختم کردیا۔ یہ 20 سالوں کے دوران ایشیاکپ میں پاکستان کے خلاف بھارت کی پہلی جیت تھی۔ایشیا کپ 2008 کے سپر 4 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دوبارہ میچ ہوا، پاکستان گروپ میچ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کا داغ دھونے کے لیے بے تاب تھا۔اس میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، اوپنرز گوتم گھمبیر اور وریندر سہواگ نے عمر گل کی خدمات سے محروم پاکستانی بولنگ اسکواڈ کا نہایت عمدگی سے سامنا کیا۔

جس وقت بائیں ہاتھ کے کھلاڑی گوتم گھمبیر 11 ویں اوور میں 35 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، اس وقت تک بھارت کا مجموعی اسکور 88 رنز تھا، ان کے آؤٹ ہوتے ہی وریندر سہواگ اور سریش رائنا بھی زیادہ دیر کریز پر رک نہ سکے اور دونوں بیٹسمین 91 رنز پر پویلین لوٹ گئے، یوراج سنگھ بھی 129 پر داغ مفارقت دے گئے جس کے بعد ٹیم کومہندرا سنگھ دھونی اور نوجوان روہت شرما نے سنبھالا۔ نوجوان روہت شرما تیز رفتار اور اسپن دونوں کے خلاف نہایت عمدگی سے کھیلے۔ شرما نے تجربہ کار شاہد آفریدی اور ڈیبیو کرنے والے سعید اجمل دونوں کے خلاف وکٹ کے چاروں طرف اسٹروک کھیلے۔ ان دونوں پاکستانی بولرز نے اپنے 20 اوورز میں 99 رنز دیئے۔ سعید اجمل نے بالآخر اپنے کیرئیر کی پہلی وکٹ حاصل کی۔روہت شرما کے 58 اور مہندرا سنگھ دھونی کے شاندار 76 رنز کی بدولت بھارت نے 300 کا مجموعہ حاصل کر لیا، آخری اوورز میں عرفان پٹھان نے 25 گیندوں پر 38 رنز بنا کر اپنی ٹیم کے مجموعی اسکور کو 300 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس میچ میں شعیب ملک کی عدم موجودگی میں پاکستان کی ٹیم نے ہدف کے تعاقب کے لیے ناصر جمشید اور سلمان بٹ کو بطور اوپنر بھیجا، دونوں اوپنرز نے بھارتی بولرز کو پریشان کیا، سلمان بٹ کے رن آؤٹ ہونے سے قبل پاکستان نے 7 اوورز میں 65 رنز بنا لیے تھے۔بے خوف جمشید نے صرف 43 گیندوں پر اپنی نصف سنچری اسکور کی وہ 121 کے مجموعی اسکور پر پویلین لوٹ گئے.

پاکستان ٹیم نے 25 ویں اوور میں محمد یوسف کی وکٹ کا نقصان اٹھایا جس کے بعد کپتان مصباح الحق اور یونس خان نے اسکور کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری سنبھالی۔یونس خان نے مصباح الحق کے ساتھ مل کر بھارتی بولرز کو آڑے ہاتھوں لیا، انہوں نے وکٹ کے چاروں طرف شاندار اسٹروک کھیلے اور 27 گیندوں قبل ہی میچ میں فتح کا بگل بجایا۔یونس خان نے اس میچ میں 117 گیندوں پر 123 رنز کی ناقابل شکست اننگ کھیلی، جبکہ ان کے ساتھی کپتان مصباح الحق نے 62 گیندوں پر شاندار 70 رنز اسکور کیے۔

Advertisement

دمبولا، 2010

دمبولا میں ہونے والے ایونٹ میں پاکستان، بھارت کے خلاف میچ سے قبل جیت سے دور تھا اور بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے قبل بھارت سے ٹاکرا سنسنی خیز ہونا یقینی تھا، میچ میں گرین شرٹس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا انتخاب کیا۔17ویں اوور میں عمران فرحت کے آؤٹ ہونے تک دونوں اوپنرز  سلمان بٹ اور عمران فرحت نے ٹیم کے لیے 71 رنز بنائے۔

اس شاندار آغاز کی بنیاد پر بٹ نے شعیب ملک کے ساتھ مل کر 29 ویں اوور میں پاکستان کا اسکور 1 وکٹ پر 144 تک پہنچا دیا اور لگ رہا تھ کہ بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن کو پاکستان 300 رنز سے زائد کا ہدف دے گا۔لیکن شعیب ملک اور سلمان بٹ کی وکٹیں 159 کے مجموعہ پر گرنے سے پاکستان کیمپ میں مایوسی چھا گئی، اس وقت کپتان شاہد آفریدی نے عمر اکمل کے ساتھ مل کر ٹیم کو سنبھالا۔

شاہد آفریدی اور عمر اکمل نے ٹیم کے اسکور کو 38 ویں اوور میں 195 تک پہنچایا، لیکن یہ دونوں بیٹسمین بھی 24 رنز کے اندر آؤٹ ہو گئے

اگر کامران اکمل کی صرف 41 گیندوں میں شاندار نصف سنچری نہ بنتی تو پاکستان کو 267 کے ٹوٹل تک پہنچنے کے لیے مشکل کا سامنا کرنا پڑتا جو اس نے آخری اوور میں آؤٹ ہونے سے پہلے کیا تھا۔

یہ ہدف بھارت کی مضبوط ٹاپ بیٹنگ آرڈر کے لیے کم تھا، بھارتی اوپنرز سہواگ کے برق رفتار 47 اور کوہلی کے 18 رنز نے پاکستانی بولرز کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ بھارتی اوپنرز کے آؤٹ ہونے کے بعد مہندرا سنگھ دھونی اور گوتم گھمبیر نے میچ پر اپنی گرفت کو اور مضبوط کیا۔پاکستانیوں کی جانب سے میچ کے وسط میں شاندار کفایتی بولنگ دیکھنے کو ملی لیکن دھونی اور گھمبیر نے 18 اوورز میں 100 رنز کی شراکت داری قائم کی۔بھارت 36 اوورز کے اختتام پر دو وکٹوں کے نقصان پر 180 رنز پر کھڑا تھا اور اسے میچ میں کامیابی کے لیے 14 اوورز میں 88 رنز کی ضرورت تھی۔

Advertisement

گوتم گھمبیر 83 رنز پر اجمل کے ہاتھوں بولڈ ہو گئے جبکہ روہت شرما کو آفریدی نے ایل بی ڈبلیو کیا اور دھونی کو 56 رنز پر بولڈ کیا۔

آخری 5 اوورز میں بھارت کو جیت کے لیے 48 رنز درکار تھے اور کریز پر سریش رائنا موجود تھے۔ انہوں نے بھارت کی فتح کو قریب کرنے کے لئے دو چھکے لگائے اور پھر رن آؤٹ ہو گئے، آخری اوور میں میچ انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز ہو گیا تھا ہربھجن سنگھ نے محمد عامر کی آخری گیند پر چھکا لگا کر بھارت کی فتح کا اعلان کیا۔

میرپور 2012

بنگلہ دیش میں ہونے والا یہ ایونٹ بھی راؤنڈ رابن ٹورنامنٹ تھا جس میں پاک بھارت ٹاکرا سب کی نگاہوں کا مرکز تھا۔گرین شرٹس بھارت کے خلاف میچ میں زیادہ اعتماد کے ساتھ میدان میں اترے کیونکہ بھارتی سورماؤں کو دو دن قبل بنگلہ دیش نے 289 رنز بنانے کے باوجود شکست دی تھی۔پاکستان نے اس میچ میں پہلے بیٹنگ کا آغاز کیا، گرین شرٹس کے اوپنرز محمد حفیظ اور ناصر جمشید نے بھارتی بولرز کو تگنی کا ناچ نچایا، دونوں اوپنرز اپنی مکمل فارم میں نظر آ رہے تھے۔

اس میچ بھارتی کپتان کی بے بسی عروج پر تھی، پاکستانی اوپنرز جوڑی توڑنے کے لیے دھونی نے 25 اوورز تک 8 بولرز آزمائے، جن میں جزوقتی روہت شرما اور سریش رائنا بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے اوپنرز نے بھارت کے خلاف 144 رنز کا شانداراوپننگ اسٹینڈ کا تاریخی ریکارڈ عبور کر لیا اور اننگ کے نصف حصے تک 150 کا ہندسہ عبور کر لیا۔ان کی شراکت بالآخر 36 ویں اوور میں 224 کے سکور پر ختم ہوئی جب جمشید صرف 104 گیندوں پر 112 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ایک رن کے بعد حفیظ بھی چلے گئے انہوں نے 113 گیندوں پر 105 رنز بنائے تھے۔

Advertisement

اس کے بعد یونس خان نے 32 گیندوں پر تیز رفتار 52 رنز بنائے اور عمر اکمل کے ساتھ مل کرچھ اوورز میں 48 رنز بنائے، گرین شرٹس نے 6 وکٹوں پر 329 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف بھارت کو دیا۔

ہدف کے تعاقب میں بھارت کا آغاز اچھا نہ تھا، میچ کی دوسری گیند پر ہی گھمبیر پویلین لوٹ گئے لیکن نوجوان ویرات کوہلی نے سچن ٹنڈولکر کے ساتھ مل کر پاکستانی بولنگ اٹیک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ٹنڈولکر نے بنگلہ دیش کے خلاف پہلے میچ میں اپنی 100 ویں بین الاقوامی سنچری اسکور کی تھی۔

ویرات اور ٹنڈولکر دونوں نے مل کر پاکستانی بولرز کو سنھبلنے کا موقع ہی نہیں دیا، ٹنڈولکر 52 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے لیکن کوہلی کریز پر موجود تھے جنہوں نے روہت شرما کی شراکت میں برق رفتاری کے ساتھ ٹیم کے اسکور کو 26 اوورز میں 172 تک پہنچا دیا۔

جس وقت کوہلی 148 گیندوں پر 22 چوکوں اور صرف ایک چھکے کی مدد سے شاندار 183 رنز بنا کر روانہ ہوئے تو بھارت کی کامیابی زیادہ دور نہیں تھی، بھارت نے اس میچ میں دو اوور قبل مطلوبہ ہدف حاصل کر کے ون ڈے میں سب سے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کا ریکارڈ بھی بنایا۔

میرپور 2014

اس ایونٹ میں سری لنکا سے ہارنے کے بعد بھارت کو پاکستان کے خلاف لازمی جیت درکار تھی، مجموعی طور پر ٹیم کی کارکردگی دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ وہ بنگلہ دیش سے بھی ہار جائے گا۔ بھارت کا دوسرا میچ افغانستان کے خلاف تھا جسے پاکستان پہلے ہی شکست دے چکا تھا۔

Advertisement

مختلف کامیابیوں کے باوجود بھارت کا گرین شرٹس کے خلاف میچ شاندار شو نہیں تھا۔ اوپننگ کرنے والے روہت شرما نے نصف سنچری بنائی لیکن جب وہ 20 ویں اوور میں 92 کے اسکور کے ساتھ رخصت ہوئے تو ٹیم جلد ہی نئے تیز گیند باز محمد طلحہ کی متاثر کن رفتار کا سامنا نہ کر سکی اور 155 رنز پر 5 آئوٹ پر سمٹ گئی۔

امباتی رائیڈو نے اننگز کے دوسرے ہاف کو سنبھالتے ہوئے 58 رنز بنائے اور جڈیجہ کے ساتھ 10 اوورز میں 59 کا اضافہ کیا جو خاص طور پر آخر میں زیادہ جارحانہ تھا۔

بائیں ہاتھ کے آل راؤنڈر 48 گیندوں پر 2 چھکوں سمیت 52 رنز بنا کر ناقابل شکست واپس لوٹے جس نے بھارت کو 245 رنز پر 8 آئوٹ کے برابر تک پہنچا دیا۔ پاکستانی پیسر طلحہ نے دنیا کی بہترین بیٹنگ لائن اپ کے خلاف سات اوورز میں 2-22 کی غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔

ہدف کے تعاقب میں ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان نے کھیل پر قابو پالیا تھا کیونکہ اوپنرز شرجیل خان کے آؤٹ ہونے سے پہلے ٹیم کا اسکور 11ویں اوور میں 71 رنز پر پہنچ گیا تھا، حالانکہ احمد شہزاد بھی 15 ویں اوور میں آؤٹ ہو گئے لیکن 2 وکٹوں پر 93 رنز کے ساتھ مضبوط پوزیشن میں دکھائی دے رہی تھی۔

لیکن اچانک مصباح اور عمر اکمل جلد آؤٹ ہوگئے اور ٹیم کا اسکور 4 وکٹوں پر 113 رنز ہو گیا۔ صہیب مقصود نے محمد حفیظ کے ساتھ مل کر ٹیم کو سنبھالا اور 44 ویں اوور میں 200 رنز تک پہنچا دیا۔

لیکن پھر مصیبت آئی محمد حفیظ کے آؤٹ ہونے کے بعد صہیب مقصود بھی غلط فہمی کا شکار ہو کر رن آؤٹ ہو گئے۔گرین شرٹس کا اسکور 6 وکٹوں پر 203 رنز تھا، شاہد آفریدی عمر گل کے ساتھ کریز پر موجود تھے جبکہ پاکستان کو جیتنے کے لیے 10 گیندوں پر 11 رنز کی ضرورت تھی۔

Advertisement

عمر گل کے آؤٹ ہونے کے بعد سعید اجمل کریز پر آئے جنہیں ایشون نے بولڈ کر دیا، اسکور 9 وکٹوں پر 236 رنز تھا، جنید خان نے اپنے کیرئیر کا سب سے اہم سنگل رن لے کر آفریدی کو موقع فراہم کیا۔شاہد آفریدی نے ایشون کی تیسری گیند پر کور کے اوپر سے چھکا لگایا اور جنید خان کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اگلی ہی گیند پر لانگ آن پر چھکا لگا کر میچ میں ناقابل یقین جیت حاصل کی۔

میرپور، 2016

یہ ایونٹ اور گراؤنڈ تو وہی تھا لیکن دو سال کے بعد ہونے والے اس ایونٹ کو 50 اوورز کے بجائے پہلی بار 20 اوورز کے فارمیٹ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھارت میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی منعقد ہونا تھا۔برقی قمقموں کی روشنیوں کے نیچے سبز رنگ کی پچ پر دھونی نے  پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی جو ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ گرین شرٹس کو ابتداء ہی میں محمد حفیظ کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑا تھا، شرجیل اور خرم منظور نے 3.2 اوورز میں 22 رنز بنا کر نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

اچانک سات اوورز کے بعد شعیب ملک اور عمر اکمل بھی پویلین واپس لوٹ گئے گرین شرٹس کا اسکور 5 وکٹوں پر 35 رنز تھا۔

کپتان شاہد آفریدی رنز کی رفتار بڑھانے کے لیے کریز سے باہر نکلے تو پھر دوبارہ واپس نہ آ سکے، اس میچ میں سرفراز احمد کے 25 رنز سب سے نمایاں تھے، گرین شرٹس کی پوری ٹیم 18 ویں اوور میں صرف 83 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ہدف کے تعاقب میں بھارتی ٹاپ آرڈر کے لیے محمد عامر بجلی بن کر گرے انہوں نے پہلے ہی اوور کی دوسری گیند پر روہت شرما اور چوتھی گیند پر اجنکیا رہانے کو پویلین واپس بھیج دیا، محمد عامر نے اپنے دوسرے اور میچ کے تیسرے اوور میں سریش رائنا کو بھی میدان بدر کیا تو بھارتی ٹیم کا اسکور 3 وکٹ پر صرف 8 رنز تھا۔

3 وکٹوں کے جلد گرنے کے بعد ویرات کوہلی اور یوراج سنگھ نے بھارت کے اسکور کو آگے بڑھایا اور 12 اوورز میں 68 رنز کا اضافہ کیا۔

Advertisement

کوہلی نے 51 گیندوں پر 49 رنز بنائے، ہاردیک پانڈیا صفر پر آؤٹ ہوئے لیکن کم اسکور کے دفاع نے پاکستان کے لیے اس میچ میں واپسی نا ممکن بنا دی تھی، بھارت نے یہ میچ 27 گیندوں قبل ہی 5 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔

دبئی، 2018

اس ایونٹ میں بھارت اور پاکستان دونوں اپنے گروپ میں ایسوسی ایٹ کوالیفائر ہانگ کانگ کو شکست دینے کے بعد آمنے سامنے ہوئے۔ آئی سی سی نے  زیادہ سے زیادہ تجارتی آمدنی کے لیے دو روایتی حریفوں کے درمیان کم از کم دو میچوں کو یقینی بنانے کے لیے اس ایونٹ میں نیا فارمیٹ وضع کیا تھا۔

اس بار یہ ٹورنامنٹ 50 اوور کے فارمیٹ میں منعقد کیا گیا تھا۔ ہانگ کانگ کے خلاف بھارت نے 7 وکٹوں پر 285 رنز بنائے تھے، جبکہ پاکستان نے بھی ہانگ کانگ کے خلاف 8 وکٹوں سے جیت حاصل کی تھی.تاہم بھارت اور پاکستان کے میچ میں پاکستانی اوپنرز بھارتی بولنگ کے خلاف جدوجہد کرتے نظر آئے، بھونیشور کمار نے امام الحق اور فخر زمان دونوں کو جلد ہی پویلین بھیج دیا تھا پانچویں اوور تک پاکستان کا اسکور 2 وکٹوں پر صرف 3 رنز تھا۔نوجوان بابر اعظم اور شعیب ملک نے 18 اوورز میں 82 رنز کی عمدہ شراکت کے ساتھ ٹیم کی پوزیشن کو مستحکم کیا اور پاکستان واپسی کے راستے پر دکھائی دیا۔لیکن پھر کلدیپ یادیو نے بابر کو بولڈ کیا دوسرے اینڈ سے کیدار جادھو نے سرفراز احمد، آصف علی اور شاداب خان کو یکے بعد دیگرے پویلین واپس بھیج دیا، شعیب ملک کیدار جادھو کے اس خطرناک سپیل کے وسط میں رن آؤٹ ہو گئے۔

پاکستان 7 وکٹوں کے نقصان پر 121 رنز کے ساتھ مشکلات کا شکار تھا، فہیم اشرف اور محمد عامر نے اسکور 158 تک پہنچایا، پاکستان اس میچ میں 44 ویں اوور میں 162 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ایک آسان ہدف کے تعاقب میں روہت شرما اور شیکھر دھون نے شاندار انداز میں 14 ویں اوور میں 86 رنز بنائے، شرما نے تین چھکوں کی مدد سے 52 رنز بنائے۔اگرچہ شیکھر دھون دو اوور کے بعد آؤٹ ہو گئے لیکن رائیڈو اور دنیش کارتک نے 31، 31 رنز کی اننگ کھیل کر 29 ویں اوور میں میچ کا نتیجہ اپنے حق میں کر لیا۔

دبئی، 2018

Advertisement

منتظمین کے منصوبے کے مطابق سپر 4 راؤنڈ رابن مرحلے میں دونوں ٹیموں کا دوسرا میچ تھا اور پچھلی بار کی طرح ایک بار پھر پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی۔پھر بھی ٹاپ آرڈر سے آغاز سست رہا کیونکہ پاکستان پاور پلے میں رن ریٹ بڑھانے کے بجائے بعد آخری اوورز میں جارحانہ بیٹنگ کے لیے وکٹیں بچانا چاہتا تھا۔

آٹھ اوورز کے بعد امام الحق کے نقصان پر ٹیم کا سکور 24-1 تھا اور جب 55 کے مجموعی اسکور پر فخر آؤٹ ہوئے تو پاکستانی اننگ کے 15 اوورز ہو چکے تھے۔اس میچ میں اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ سرفراز نے خود کو نمبر 4 پر ترقی دے کر بابر کو بلایا اور پھر واپس بھیج دیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

اس نے نہ صرف کپتان بلکہ تجربہ کار آل راؤنڈر شعیب ملک پر بھی بہت سی ذمہ داری چھوڑی، جنہوں نے احتیاط کے ساتھ جارحیت کا مظاہرہ کیا اور سرفراز کے 44 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد مجموعی اسکور کو 165 تک پہنچا دیا.لیکن اس وقت تک 39 اوورز گزر چکے تھے، شعیب ملک نے 44 ویں اوور میں 203 کے مجموعی اسکور پر 90 گیندوں پر 78 رنز بنائے، صرف آصف علی کے 21 گیندوں پر دو چھکوں کی مدد سے 30 رنز نے اثر ڈالا۔ شائقین کرکٹ کو یقین تھا کہ پاکستان کا 237-7 کافی نہیں ہوگا۔

بھارتی اوپنرز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس بار وہ زیادہ دیر تک چلیں گے، محمد عامر، شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کے ساتھ ساتھ شاداب، نواز اور شعیب ملک بھی بھارتی اوپنرز کے مضبوط اعتماد کو توڑنے میں ناکام رہے۔اس میچ میں بھارت کی واحد وکٹ شیکھر دھون کی گری جو روہت شرما کے منع کرنے کے باوجود رن لینے کے لیے دوڑ پڑے اور رن آؤٹ ہو گئے۔

شیکھر دھون کے رن آؤٹ ہونے کے وقت تک بھارت کا سکور 210 تھا اور شیکھر دھون 100 گیندوں پر 16 چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے 114 رنز بنا چکے تھے۔شیکھر دھون کی وکٹ گرنے کے بعد بھارت نے مزید کوئی نقصان نہیں اٹھایا، بھارتی اوپنر روہت شرما 119 گیندوں پر 111 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے، شرما کی اس اننگ میں چار چھکے بھی شامل تھے۔بھارت نے یہ میچ 40 ویں اوور میں 9 وکٹوں سے جیت لیا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بشکیک میں پاکستانی طلباء کی حفاظت اولین ترجیح ہے، ترجمان دفتر خارجہ
وزیر اعظم کی بشکیک میں پاکستانی سفیر کو طلباء کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت
کرغزستان میں مقامی وغیر ملکی طلبہ میں ہنگامہ آرائی، پاکستانی طلبہ بھی زد میں
نادرا نے ’آل ان ون‘ نامی جدید ترین ڈیجیٹل شناختی کٹ تیار کر لی
قومی والی بال ٹیم کے ہر کھلاڑی کو 5 لاکھ فی کس نقد انعام کا اعلان
صنعتوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے، وزیراعظم شہباز شریف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر