مقامی بسوں کے مسافروں کو ہمیشہ زیادہ خطرات کا سامنا رہتا ہے، اورصوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے شہریوں کے لیے کوئی بس اسٹاپ نہ ہونے سے معاملات مزید خراب ہورہے ہیں۔ شہر کے بیش ترعلاقوں میں عوام سڑک کنارے بس کا انتظارکرتے نظر آتے ہیں۔
شمائلہ جمیل گزشتہ تین سال سے سبزل روڈ سے جناح روڈ تک لوکل بس سے سفرکررہی ہیں۔ ان کے مطابق، ان کے گھر کے قریب یا متعلقہ علاقے میں کوئی بس اسٹاپ نہیں ہے۔
شمائلہ جمیل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے پاس سڑک کے کنارے بس کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، جہاں میں خود کو کافی غیرمحفوظ محسوس کرتی ہوں۔ ان کی طرح روزانہ خواتین سمیت متعدد افراد بس کا انتظار کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف بسیں اس قدر خستہ حال ہیں کہ ان میں سفر کے دوران سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔انسان کو گھٹن کا احساس ہوتا ہے، اور لوکل بس میں سوار ہونے سے پہلے ہی تھکن کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑجاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’انتظامیہ کو شہربھرمیں خاص طورپرخواتین کے لیے بس اسٹاپ بنانا چاہیے تاکہ ہم محفوظ سفر کرسکیں۔‘‘
کوئٹہ سمیت بلوچستان میں لوکل بس سروس کا نظام درہم برہم ہے کیونکہ گاڑیوں کی حالت ابترہے۔ آج بھی کوئٹہ میں پرانی اور خستہ حال بسیں چلتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں، جوبڑے پیمانے پر کاربن کا اخراج کرتے ہوئے فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔
مقامی بس میں سفر کرنے والی قمبرانی روڈ کی رہائشی نجی اسکول کی ٹیچرمومنہ شاہ نے پریشانی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ان بسوں کی حالت انتہائی خستہ ہے اورخواتین مسافروں کا تناسب بہت کم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کی درخواست متعلقہ محکمے تک پہنچائی جائے تاکہ ان بسوں کی جانچ پڑتال اوران کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ جنہوں نے بسوں میں مناسب سیٹیں اورلوازمات نہیں لگائے، اوربسوں کےعملے کا رویہ بھی کافی غیر پیشہ ورانہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بس اسٹاپ سفر کرنے والے عوام کے لیے انتہائی اہم اور ضروری ہیں، اور حکومت کو ان کے روزمرہ کے سفر کو مزید آسان بنانے کے لیے مختلف علاقوں میں مختلف پوائنٹس تعمیر کرنے چاہییں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار کے طور پرصوبہ بلوچستان ایک غیرمحفوظ اورنازک صورتحال سے دوچار ہے۔لہٰذا، ایسی گاڑیوں کے مالکان کو ہدایات جاری کی جانی چاہیے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پرانھیں اپ ڈیٹ کریں یا انھیں ان گاڑیوں سے تبدیل کریں جو ماحول کے لیے خطرناک نہ ہوں۔
بلوچستان میں حالیہ موسمیاتی تباہی کی وجہ سے انتظامیہ کو زیادہ محتاط اورفکرمند ہونا چاہیے۔ سڑک پر ایسی گاڑیوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے جوخطرناک کاربن کے اخراج سے فضاء کو آلودہ کرتی ہیں۔ ایسی پرانی گاڑیوں سے نہ صرف محفوظ سفرکرنا بلکہ آلودہ ہوا میں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، مقامی انتظامیہ کو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کرکاربن خارج کرنے والی گاڑیوں پرسخت قوانین نافذ کرنے چاہییں۔
حکومت کی جانب سے برسوں پہلے گرین بس سروس کے اعلان اوراس کے بعد بسوں کی درآمد کے باوجود کوئٹہ میں عوام ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی خدمات سے محروم ہیں۔ حکومت کی جانب سے مقامی افراد کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
سریاب روڈ کے ایک رہائشی منیر احمد نے بول نیوز کو بتایا کہ دو یا چارپہیوں والی گاڑیوں کے مالک متوسط طبقے کے افراد بھی گیس اورایندھن کی بلند قیمتیں برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے وہ پبلک ٹرانسپورٹ پرانحصار کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ کوئٹہ دارالحکومت اورافرادی قوت کی اکثریت کا مرکز ہے، اس لیے حکومت کی ترجیح مقامی نقل و حمل کے نظام پرسبسڈی دینا ہونا چاہیے، جس سے متوسط اور کم آمدنی والے افراد کو فائدہ پہنچے۔
پاکستان کے دیگر شہری علاقوں، خاص طور پرصوبائی دارالحکومتوں میں مقامی نقل و حمل کے ذرائع کی مثالیں موجود ہیں، جیسے کہ لاہور میں ریڈ بسیں اور کراچی میں حال ہی میں شروع کی گئی پیپلز بس سروس۔ یہ بس سروسز زیادہ ترپس ماندہ علاقوں میں پائی جاتی ہیں اورکم کرایہ وصول کرتی ہیں، جس سے وہ کم آمدنی والے شہریوں کی دسترس میں ہیں۔
ایک طالب علم شبیرخان نے کہا کہ ”بلوچستان کے عوام کو مسلسل دعوے اوروعدوں سے بہلایا جارہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سی پیک منصوبے سے بلوچستان کو فائدہ پہنچے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سی پیک کے تحت اورنج لائن ٹرین لاہور کو دی گئی لیکن اس پروجیکٹ کا خمیازہ پورا بلوچستان بھگت رہا ہے۔
تیزی سے پھیلتے ہوئے شہری مرکزمیں روزگار کے مواقع کی تلاش میں بلوچستان اورجنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں سے لوگ وادی کوئٹہ کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ لوگوں کو سخت مسائل کا سامنا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور مقامی نقل و حمل کے غیر فعال نظام کی وجہ سے ان کا روزانہ کا سفر مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ رکشہ یا ٹیکسی میں سفر کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے مقامی بسیں ان کے لیے واحد قابل عمل آپشن ہیں۔
یہ انتہائی خستہ حال بسیں سفر کو مشکل بناتی ہیں کیونکہ ہمیشہ حادثے کا خطرہ رہتا ہے کیونکہ ایسی گاڑیاں اچھی حالت میں نہیں ہوتیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق شہر بھر میں انتظار گاہیں بنائی گئی ہیں، انہیں فعال اورقابل استعمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انتظامیہ کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کے لیے علیحدہ انتظار گاہیں بنائی جائیں گی تاکہ وہ کسی مشکل کے بغیر بس میں سوارہوسکیں۔ کوئٹہ میں خواتین کے لیے الگ سے بس اسٹاپ نہیں ہے اور خواتین مسافروں کے ساتھ ساتھ طالبات بھی بس اسٹاپ نہ ہونے کی شکایت کرتی ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے ایک طالب علم اورنواں کلی کے رہائشی شاہد علی نے کہاکہ ’’مجھے یونیورسٹی جانے کے لیے ہر روز دو لوکل بسوں سے سفر کرنا پڑتا ہے، لیکن اس دوران بس کا انتظار کرنے کے لیے سڑک کے کنارے مجھے کھڑے رہنا پڑتا ہے۔
اول توسڑکیں انتہائی تنگ ہیں، اورکوئی انتظار گاہ نہیں ہے، جس سے معاملات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
پرائمری اسکول کے استاد نثارکو بھی بے شمارشکایات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بسیں پہلے ہی خستہ حالت میں ہیں، کوئی مناسب بس اسٹاپ نہیں ہے، اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں ہمیشہ زیادہ بھیڑ ہوتی ہے، جو مسافروں کے لیے خطرناک ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سڑک پران بسوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی مناسب چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”ہم پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور ہماری آمدنی ٹیکسیوں کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے۔ ہمارا واحد آپشن لوکل بس سروس ہے، اور جب اس سے ہماری جان خطرے میں پڑ جائے تو ہم ایسی بسوں میں سفر کرنے کو کیسے ترجیح دیں گے۔‘‘
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News