
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو 18مارچ کو پیش کرنے کا حکم
اسلام آباد کی سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 18 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کردی ۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کرتے ہوئے 18 مارچ کو عمران خان کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم سنا دیا۔
سماعت کا احوال
اس سے قبل اسلام آباد کی سیشن عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں توشہ خانہ کیس میں 2 درخواستیں دائر کردیں۔
عدالت میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی شکایت کو ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعا کی اور عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کے سامنے اہم نکتہ اٹھا دیا اور عمران خان کے خلاف شکایت کنندہ کے دستخطوں میں فرق کے اہم ثبوت عدالت کے سامنے رکھ دیے۔
وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا آرڈر عدالت کے سامنے رکھ دیا اور عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی مخالفت کردی۔
عمران خان کے وکیل کے دلائل
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک استدعا کرنا چاہتا ہوں، عمران خان آج پیش نہیں ہو سکتے، ایسا نہیں ہے کہ عمران خان جان بوجھ کر پیش نہیں ہورہے۔ ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں پیٹیشنز دائر کر رکھی ہیں، عمران خان کو سیکیورٹی تھریٹس ہیں، عمران خان پر حملہ ہوا، وہ زخمی ہوئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ درخواست کے وارنٹ جاری کرنے سے پہلے کیس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کیا جائے، عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہو سکتے۔
وکیل عمران خان نے اپنے موقف میں کہا کہ شکایت بھیجنے کی مجاز اتھارٹی نے شکایت بھیجی ہی نہیں، شکایت کنندہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نہیں ہے، بھیجی گئی شکایت کے آخری صفحے پر شکایت کنندہ کے دستخط موجود ہیں اور اس سے اگلے صفحے پر حلف نامہ موجود ہے، دونوں دستخطوں میں فرق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ کیس؛ سیشن عدالت کا عمران خان کو 13 مارچ کو پیش ہونے کا حکم
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ عمران خان کے خلاف شکایت 120 دن کے اندر بھیجی جا سکتی تھی۔ کرپٹ پریکٹس کے معاملے میں کرمنل پروسیڈنگ شروع کرنے کے لیے 120 دن کی مدت ہوتی ہے۔
وکیل عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ میں نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی استدعا نہیں کی، عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی ہے، قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری برقرار رہیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت عمران خان کو سیکیورٹی فراہم نہیں کررہے، نگران حکومت پنجاب نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے، عمران خان کو سابق وزیراعظم کے طور پر جو سیکیورٹی ملنی چاہیے تھی وہ بھی نہیں دی گئی، عمران خان پر حملہ ہوچکا ہے، ابھی بھی ان کی جان کو خطرہ ہے۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ہم نے عمران خان کے تمام کیسز جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کرنے کی استدعا کر رکھی ہے، عمران خان پیش ہونا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، میرا فرض تھا عمران خان کی سیکیورٹی سے متعلق عدالت کو آگاہ کرنا تھا، فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ پہلے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کرنا ہے یا وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد کی قانونی کارروائی کرنی ہے۔
جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل دیں گے؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی میں نے ابھی ابتدائی دلائل دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو آج پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
سعد حسن ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل یا منسوخ نہ کیے جائیں، وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کرایا جائے اور وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد نہ کرانے والوں کو شوکاز نوٹس کیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کیس کی سماعت مختصر وقت کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگلی سماعت پر کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر دلائل دوں گا۔
عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News