جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ برطرف سرکاری ملازمین کے حوالے سے اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس میں پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیں پھر وکلا کو بھی سنیں گے۔ جس کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات جمع کروادی ہیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ مل کر کام کر رہے ہیں امید ہے اچھے نتیجے پر پہنچیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا 7 نومبر 1996 کے خط کے تحت ان ملازمین کو نکالا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کتنے اداروں کے ملازمین سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثرہ ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ 16 اداروں کے 16 ہزار ملازمین بتائے جا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا کہنا ہے 5 ہزار متاثرہ ملازمین ہیں۔ 1993 سے 1996 تک ان ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ 1999 تک ان ملازمین کو مختلف اوقات میں نکالا جاتا رہا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیا قانون کے مطابق ان ملازمین کی پنشن کا حق بنتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میرے خیال سے قانون کے مطابق ان ملازمین کے پنشن کا حق ابھی نہیں بنے گا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ آرڈیننس اورایکٹ کے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین مستقل تھے یا ڈیلی ویجر پر تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملے جلے ہیں لیکن زیادہ لوگ مستقل تھے۔ ملازمین اپنی سنیارٹی کو لے کرعدالتوں میں آئے تھے۔ سپر یم کورٹ نے درخواستوں پر اٹارنی جنرل کو نوٹس تو دیا لیکن 27 اے کا نوٹس نہیں تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے آرڈیننس یا ایکٹ پر تو کوئی فیصلہ نہیں دیا؟
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ نوٹس دینا تو ایک رسمی کارروائی ہے عدالت نے اٹارنی جنرل آفس کو سن کر فیصلہ دیا۔ آئین سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کا اختیار دیتا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کسی طریقہ کار کے تحت ان ملازمین کو بھرتی نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی بھرتی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا۔ سرکاری عہدوں پر بھرتی کیلئے معیار تو ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہہ رہے کہ حکومت بھرتیاں نہیں کر سکتی۔ حکومت صرف قانون کے مطابق ہی بھرتیاں کرسکتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں مذید کہا کہ آپ کہتے ہی ملازمین کو برطرف کرتے وقت قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ ملازمین کو بھرتی کرنے کیلئے بھی تو قانونی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے۔ عدالت نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔ عدالتی فیصلے مستقبل کیلئے بطور نظیر پیش ہوتے ہیں۔ کسی نے تو مستقبل کیلئے اسٹینڈ لینا ہی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تمام ملازمین کو ایک لیٹر یا سرکاری حکم کے تحت نہیں نکالا گیا۔ یہ درست ہے کہ غیرآئینی قانون سازی میں ملازمین کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بحالی کا قانون دوبارہ نہیں بن سکتا کیونکہ عدالتی فیصلہ آچکا ہے۔ پارلیمنٹ دس سال سروس پر ملازمین کو کوئی ریلیف دینا چاہیے تو دے سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پارلیمان حکومت اور میرے ذریعے ایکٹ کا دفاع کررہی ہے۔
جسٹس قاضی امین بولے کیا آئین سے بڑھ کر کوئی گورننس سسٹم ہو سکتا ہے؟ حکومت نے پہلے ملازمین کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔ نظرثانی کیس میں حکومت ملازمین کو بحال کرنا چاہ رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک برطرف ملازم کی تین بیٹیاں فیس نہ ہونے پر اسکول سے نکالی گئیں۔ کونسی حکومت چاہے گی کہ لوگ اس حال کو پہنچیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدالت سنگدل نہیں ہوتی۔ معلوم ہے کسی گھر کا چولہا بند ہوجائے تو وہاں کیا حالت ہوگی
اٹارنی جنرل نے کہا معلوم ہے عدالت مقبولیت نہیں قانون پر مبنی فیصلے کرتی ہے۔ اگر2010 میں یہی کیس آتا تو ملازمین کی بحالی کی مخالفت کرتا۔
جسٹس سجاد علی شاہ بولے آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ بحالی کا قانون غیرآئینی ہے۔ آپ کو مسئلہ صرف ملازمین کی عمر اور دس سال کی سروس سے ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ عدالتی فیصلہ آرڈیننس کے تحت بحال افراد پر لاگو نہیں ہوتا۔ آرڈیننس کی مدت زیادہ سے زیادہ 240 دن ہوتی ہے۔ چیئرمین نیب کے کام جاری رکھنے پر بھی آرڈیننس آیا ہے۔ نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین کو ہمیشہ کیلئے عہدے پر رکھنا آئین اور پارلیمان کی توہین ہوگی۔ گزشتہ سماعت پر کہا گیا حکومت آرڈیننس پر چل رہی ہے۔ جتنے آرڈیننس 2010 میں آئے اتنے پہلے کبھی آئے نہ بعد میں آئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرڈیننس کی توثیق نہ ہو تو اسکے تحت ہونے والے اقدامات کی کیا حیثیت ہوگی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرڈیننس کی معیاد میں ہی ریلیف مل سکتا ہے اس کے بعد نہیں۔ دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News