کوئٹہ کے سرکاری اسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق ینگ ڈاکٹرز نے احتجاج کے ساتھ او پی ڈیز سے بائیکاٹ بھی جاری ہے، ڈاکٹرز کے احتجاج کا سلسلہ 4 ماہ سے جاری ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے مزاکرات کا سلسلہ بھی ختم کردیا گیا ہے، ینگ ڈاکٹرز کا سول اسپتال میں احتجاجی کیمپ بھی جاری ہے۔
ینگ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے، صوبائی حکومت مزاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔
ڈاکٹرز کا مزید کہنا ہے کہ جلد آگے کا لائحہ عمل دینے کیلئے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گے۔
واضح رہے کہ کچھ ہفتے قبل ہی صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ نے سرکٹ ہاؤس دالبندین میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تھا کہا کہ ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے، ڈاکٹرز پر لاٹھی چارج مسئلے کا حل نہیں لیکن امن و امان قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے کمیٹی بن چکی ہے، کمیٹی کی تشکیل کے باجود ریڈ زون پر دھرنا دے کر ڈیوٹی نہ کرنا بلا جواز ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہیں بڑھانے کے علاوہ ینگ ڈاکٹرز کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہیں، ڈاکٹرز کی تنخواہیں بڑھانے سے خزانے پر سالانہ 7 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔
سید احسان شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان معاشی طور پر کمزور ہے ہم دوسرے صوبوں کے برابر تنخواہیں نہیں بڑھا سکتے، اب بھی 17 گریڈ کے ڈاکٹر کی تنخواہ اسی گریڈ کے اسسٹنٹ کمشنر سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکال کر ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج ختم کیا جائے۔
صوبائی وزیر صحت کا مزید کہنا تھا کہ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایچ او ادویات کی خریداری کرسکتے ہیں، میڈیکل اسٹور ڈیپارٹمنٹ ایک کرپٹ ادارہ ہے جس سے خریداری کا اختیار واپس لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News