اسلام آباد ہائی کورٹ؛ ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ر صفدرکی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے سماعت کی۔
سماعت کا آغاز کرتے ہوئے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ میں نے عدالتی معاونت کیلئے پیپر بکس تیار کی ہیں۔ نیب کے شواہد میں واحد چیز رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ تھی۔ میں نے رابرٹ ریڈلے سے متعلق ہی دو صفحات تیارکیے ہیں۔ ایک ایکسپرٹ کی رائے کو اس کیس میں بنیادی شواہد کے طورپرلیا گیا
امجد پرویزایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ ایکسپرٹ کی رائے کبھی بھی بنیادی شہادت نہیں ہوتی۔ محض ایک ایکسپرٹ کی رائے پر سزا سنا دینا محفوظ نہیں ہوتا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم اس معاملے کو کیلبری فونٹ کے معاملے سے دیکھیں گے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کرنے والے کسی شخص نے دستخط نہ کرنے کا نہیں کہا جس پر جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ آپ تو اس ڈاکومنٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔
وکیل مریم نواز نے کہا کہ پانچ جنوری 2017 کا لیٹر ہے جس میں سولیسٹر نے حسین نواز کے دستخط کی گواہی دی۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ آپ اس ڈاکومنٹ اور اس کے متن کو تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر وکیل مریم نواز نے جواب دیا کہ جی بالکل! ہم اس ڈاکومنٹ کو مکمل تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس عامرفاروق نے پوچھا کہ پراسیکیوشن کا اس متعلق کیا کہنا ہے؟
وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ پراسیکیوشن کہتی ہے کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ پر درج تاریخ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تاریخ پر کیلبری فونٹ دستیاب ہی نہیں تھا۔ یہ الزام غلط ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ تیاری کے وقت کیلبری فونٹ دستیاب نہیں تھا۔ جب جرح میں پوچھا کہ آپ نے ایک ڈاکومنٹ کے بارے میں رائے دی ہے۔ اس نے کہا کہ میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کی تاریخ سے قبل یہ فونٹ ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کر چکا ہوں۔
وکیل مریم نوازنے دلائل دیے کہ وہ خود اس بات کا اعتراف بھی کر چکا کہ وہ فونٹ ایکسپرٹ بھی نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پھرتو سارا ثبوت ہی ختم ہو گیا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر اس خاتون نے فائدہ کیا لیا؟ کچھ بھی نہیں۔ کسی کا اثاثہ کبھی بھی نہیں چھپ سکتا۔ رابرٹ ریڈلے نے خود کہا وہ اپریل 2005میں خود یہ فونٹ استعمال کرچکے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پھرتو یہ کیس ختم ہی ہو گیا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکٹ نے کہا کہ ریڈلے جرح میں مانا کہ وہ کمپیوٹر ایکسپرٹ ہی نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وہ ایکسپرٹ نہیں تو پھراس کے شواہد ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ جو بھی فونٹ بنتا ہے وہ کہیں رجسٹر ہو تو ہوتا ہوگا۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا کیلبری کے رجسٹر ہونے سے متعلق کوئی چیز ریکارڈ پرآئی کب ہوا؟
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے جواب دیا کہ یہ ریکارڈ پر لانا نیب کی ذمہ داری تھی ہماری نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ درست ہے تواس کا اثرکیا پڑتا ہے؟
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے جواب دیا کہ کوئی اثرنہیں پڑتا اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ پراپرٹی اسی فیملی کی تھی اسی میں رہنی تھی ابھی تک اسی کو بھگت رہے ہیں۔ مریم نواز نہ کبھی وہاں رہیں نہ ہی کبھی انہیں کوئی کرایا آیا۔ پراسیکیوشن مریم نواز کو بینیفشل مالک کہہ رہی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس وقت کیس میں تھوڑا فرق ہے۔ مرکزی ملزم کیس میں اشتہاری قرارپا چکے ان کا کیس الگ ہے۔ ہم نے اب صرف مریم نوازاور کیپٹن رصفدر کی حد تک کیس دیکھنا ہے۔
وکیل مریم نوازنے جواب دیا کہ نیب نے کہا جرم 1993 میں ہوا تھا۔ مریم نوازکو 2006میں ایک دستاویز سائن کرنے پر کہا گیا اس جرم میں معاونت کی۔ یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی اتنے سال بعد معاونت کیسے ہوئی۔ ابھی ہم اعانت جرم کا معاملہ طے کررہے ہیں۔ اپون فیلڈ اپارٹمنٹ کی قیمت کیا ہے یہ ریکارڈ پر موجود نہیں. نواز شریف کی آمدن کیا تھی یہ بھی ریکارڈ پر موجود نہیں۔
وکیل امجد پرویزنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کیس پرنیب کا پرانا قانون لگائیں یا نیا بنتی بریت ہی ہے۔ آمدن کے جائز ذرائع آج تک کسی رپورٹ، ریفرنس، فرد جرم یا ججمنٹ میں نہیں بتائے گئے۔ اثاثے کی مالیت اور آمدن کے ذرائع کو ڈسکس کرنا ضروری ہے ورنہ ملزم پر ثبوت کا بوجھ نہیں آئے گا۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن صفدر، مریم نوازکو ایک سال سزا نیب کو جواب نہ دینے پربھی ہوئی۔ تفتیشی نے اپنی رپورٹ میں نہیں کہا تھا عدم تعاون کا جرم ہوا۔
نیب کی جانب سے دلائل کے بعد سماعت بیس تمبرتک ملتوی کردی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News