Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

وارنٹ منسوخی کی درخواست؛ عمران خان کو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم

Now Reading:

وارنٹ منسوخی کی درخواست؛ عمران خان کو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم
عمران خان

جوڈیشل کمپلیکس میں امن و امان کے معاملے پر عمران خان سے جواب طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست پر اعتراضات دور ہونے کے بعد سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا۔

چیف جسٹس عامرفاروق نے حکم دیا کہ جو یقین دہانی یہاں جمع کرائی گئی ہے وہ ٹرائل کورٹ میں جمع کرائی جائے۔ عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بحال رہیں گے۔ عدالتی حکم کے مطابق ٹرائل کورٹ ہی بیان حلفی کو دیکھ کر فیصلہ کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ عمران خان کی درخواست نمٹاتے ہوئے حکم دیا کہ عمران خان اپنی درخواست سیشن کورٹ میں دائر کریں۔ ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق بیان حلفی کو دیکھے۔

عدالتِ عالیہ نے ٹرائل کورٹ میں عمران خان کے وکلا کو فریش درخواست دائر کرنے کا حکم دیا۔

Advertisement

فیصلے سے قبل سماعت کا احوال

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ 13 مارچ کا آرڈر ہے جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تیرہ مارچ کے آرڈر کو چیلنج کیا ہے۔ اس سے پہلے عدالت نے ٹرائل کورٹ سے وارنٹ کے اجرا کو معطل کیا تھا، عدالت نے عمران خان کو تیرہ مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔ تیرہ مارچ کو پٹیشنر عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ اور وہ اس دن کہاں تھے؟ جس پروکیل نے جواب دیا کہ عمران خان اس روز گھر پر تھے۔ 13 مارچ کو ٹرائل کورٹ میں ہم نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی، ہماری اس درخواست کو ٹرائل کورٹ نے خارج کرکے وارنٹ گرفتاری جاری کردی، یہ کمپلنٹ غلط طریقے سے دائر کی گئی ، متعلقہ افسر شکایت درج کرنے کا مجاز نہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کے لیے وقت مانگا۔ ہم نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ وارنٹ گرفتاری جاری کرنا بنتا ہی نہیں، فوجداری مقدمات اور ضمانت کی کیسز میں فرق ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے وارنٹ فیلڈ میں تھے اور ابھی بھی ہیں۔

وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ وارنٹ گرفتاری جاری نہ کریں جب تک درخواست قابل سماعت نہ ہو، الیکشن کمیشن ایکٹ کے تحت ہی وہ شکایت درج ہی نہیں کرائی گئی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت الیکشن کمیشن خود ہی شکایت درج کرسکتا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی ہے، میں نے ٹرائل کورٹ سے کہا کہ کیس کے قابل سماعت پر فیصلہ کردیں ،عمران خان پیش ہو جائیں گے۔

Advertisement

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت فرد جرم عائد کرنے سے پہلے آپ کے اعتراضات پر فیصلہ کرسکتی تھی۔ لیکن آپ کے مؤکل کو پیش ہونا چاہئے تھا۔ دونوں سائڈ پرجو بھی ہورہا ہے دونوں سائڈ کے بچے ہمارے بچے ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے میرے قابل سماعت کے دلائل پر آرڈر میں کچھ نہیں لکھا، 120 دنوں کے اندر الیکشن کمیشن نے فوجداری مقدمہ درج کرنا ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ میں اس نکتے کو اٹھانے پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کچھ کہنے سے معذرت کرلی۔ الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ میں ابھی یہ نہیں بتایا کہ مقدمہ وقت پر درج ہوا یا نہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے پاس فوجداری مقدمہ ٹرائل کورٹ بھیجنے کا اختیار ہی نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ابھی تک درخواست کے قابل سماعت پر بحث ہوئی ہی نہیں؟ جس پرخواجہ حارث نے جواب دیا کہ ابھی تک صرف ہماری حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر بحث ہوئی، آج ٹرائل کورٹ کو بتایا ہے کہ کمپلینٹ ہی قابل سماعت نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وارنٹ دوبارہ جاری ہونے کا ایشو نہیں، عدالت نے کہا تھا تیرہ مارچ کو پیش ہوں ورنہ وارنٹ بحال ہو جائے گا۔

وکیل عمران خان نے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کمپلینٹ دائر کر سکتا ہے، الیکشن کمشنر یا کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کی اتھارٹی دی جا سکتی ہے، جب کمپلینٹ دائر کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اس صورت میں وارنٹ جاری کرنے کی کارروائی بھی درست نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر کسی بھی کریمنل کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟ کیس جو بھی ہو مگر ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔

Advertisement

دورانِ سماعت عدالت نے خواجہ حارث اور ایڈووکیٹ جنرل کو براہ راست ایک دوسرے سے بات کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ لاہورمیں جو ہو رہا ہے ہم کیا چہرہ دکھا رہے ہیں، ہم تو سنتے تھے قبائلی علاقوں میں ایسا ہوتا یے، ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ قانون پرعمل نہیں کریں گے۔ مجسٹریٹ کی عدالت ہو سپریم کورٹ کی ہو فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے۔

وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے اپنے مؤکل سے بات کی ہے، عمران خان نے انڈرٹیکنگ دی ہے کہ آئندہ سماعت پر پیش ہو جائیں گے، وارنٹ کا اجرا بھی صرف عدالت میں حاضری کے لیے ہے۔

عدالت نے کہا کہ عدالتوں کی عزت اور وقار بہت اہم ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ قانون سب کے لیے برابر نہ ہو، ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو،  اگر ایک آرڈر ہو گیا تو وہ کاالعدم ہونے تک موجود رہتا ہے، عمل ہونا چاہئے۔ ہمارے آرڈرز دستخط کے ساتھ جاری ہوتے، ہمارے پاس ’’سل مین‘‘نہیں جو جا کر طاقت دکھائیں، اس کیس میں تو گرفتار کرکے جسمانی ریمانڈ تو ہونا نہیں۔ اس کیس میں تو صرف حاضری ہونا لازمی یے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 18 مارچ کو پیش کرنا ہے تو گرفتار آج کیوں کیا جارہا ہے؟ جس پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر چار روزے پہلے گرفتار کریں گے تو کہاں رکھیں گے ؟یہ اہم سوال ہے۔ اگر پیش 18 کو کرانا ہے تو گرفتاری 14 یا 15 کو کیوں؟

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اگرعمران خان 18 کو پیش نہ ہوئے تو امید ہے کہ خواجہ حارث وکالت چھوڑ دیں گے۔ جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نواز شریف جب اشتہاری ہوئے تو میں نے ان کی وکالت چھوڑ دی تھی۔

Advertisement

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم نے معاملے کو حل کی طرف لے کر جانا ہے۔ ہمارے سامنے شہباز گل کیس موجود ہے جس میں کہا گیا کہ ملنے نہیں دیا جارہا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ نے درخواست گزار کو عدالت میں پیش کرنا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل ہمیں خواجہ صاحب کی بات پر یقین ہے مگر اگر پھر بھی پیش نہیں ہوتے تو کیا ہوگا۔

نورمقدم قتل کیس کا ذکر

سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی کیس میں نور مقدم کیس کا بھی ذکرکیا۔

وکیل عمران خان خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ باہر لوگ جو بھی کہتے ہیں سیاست دان ہو یا کوئی بھی آخر میں انہوں نے آپ کے پاس آنا ہے۔

عدالت نے خواجہ حارث سے استفسارکیا کہ کیا برطانیہ میں پولیس والے کی وردی پرکوئی ہاتھ لگا سکتا ہے؟

Advertisement

ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہ کہ اگر پہلے بیان حلفی پرعملدرآمد ہوتا تو ایسا کچھ نہ ہوتا، وکیل عمران خان نے دلائل دیے کہ مجھے جو بتایا گیا وہ یہ کہ میرے مؤکل کا پہلی بار بیان حلفی ہے جو میں جمع کر رہا ہوں۔

ایڈوکیٹ جنرل نے عمران خان کو کل پیش کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ میں نے اپنی عدالت کی dignity بھی دیکھنا ہے اور باقی چیزیں بھی دیکھنی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان ایک قومی لیڈر ہے وہ کیوں عدالت پیش ہونے سے ڈرتے ہیں۔ عمران خان برطانیہ میں رہے ہیں ان کو قانون پرعمل درآمد کرنا چاہیے جس پرعدالت نے کہا کہ ابھی کے اور ماضی کے تمام سیاستدانوں نے سوسائٹی بلڈنگ پر کچھ نہیں کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گزشتہ انڈرٹیکنگ پر عمل ہو جاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آرمی چیف سے آسٹریلین چیف آف ڈیفنس فورسز کی ملاقات
ہیٹ ویو، سندھ بھر میں انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات ملتوی
کرغزستان معاملہ: وفاقی حکومت کےمفت ٹکٹ کےدعوے جھوٹے ثابت ہوئے، بیرسٹر سیف
وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تمام صحافتی تنظیموں کو مدعو کر لیا، عظمیٰ بخاری
ملتان، این اے 148میں ضمنی الیکشن، پولنگ کا عمل ختم ، ووٹوں کی گنتی جاری
ایوان صدر کا کرغزستان میں پُرتشدد صورتحال پر تشویش کا اظہار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر