Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

حکومت نے معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے جلد قرض کی منظوری کا مطالبہ کردیا

Now Reading:

حکومت نے معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے جلد قرض کی منظوری کا مطالبہ کردیا

Advertisement

مالیاتی (ضمنی) بل 2023 کے نفاذ کے بعد 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کے ساتھ توسیعی فنڈ کی سہولت کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والی مفاہمت کو پورا کرنے کے بعد، اس بات کا امکان ہے کہ عملے کی سطح پر معاہدہ ہو جائے گا۔ اس مہینے کے آخر تک اس پر دستخط کیے جائیں گے۔

تاہم، آئی ایم ایف کی دو طرفہ اورکثیر جہتی عطیہ دہندگان سے تصدیق حاصل کرنے کی شرط اس قسط کے اجراء میں تاخیر اورحکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔

وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بول نیوز کو بتایا کہ حکومت اس ماہ کے آخر تک عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے پر امید ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ’’ہم پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے پر 28 فروری تک دستخط ہو جائیں گے، لیکن بورڈ کی منظوری میں پانچ سے سات ہفتے لگ سکتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ہمارے عطیہ دہندگان سے تصدیق چاہتا ہے اور ہم نے ان پر زور دیا ہے کہ موجودہ معاشی غیر یقینی صورتحال پر قابو پانے کے لیے وہ 1اعشاریہ2 ارب ڈالر کی قسط  کی دو سے تین ہفتے کے اندر اندر منظوری دیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ دو طرفہ عطیہ دہندگان چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر پہلے ہی نرم شرائط پرقرضے دینے کا عہد کر چکے ہیں، جب کہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے بھی قرض دینے کی تصدیق کی ہے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں متعدد مواقع پر حکومت کی درخواست پر آئی ایم ایف نے اپنے بورڈ کا اجلاس مقررہ وقت سے پہلے بلایا اور اس بار بھی ہم ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے یہ درخواست کر رہے ہیں۔

عہدیدار نے کہا کہ ’’سعودی عرب اور چین نے پہلے ہی عوامی طور پر ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ہر ایک 2،2 ارب ڈالر فراہم کریں گے اور متحدہ عرب امارات کی حکومت بھی 1 ارب ڈالرکا قرض دے گی۔ بقیہ 4 ارب ڈالر کے لیے ہم مختلف مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور وہ عملے کی سطح کے معاہدے کی منظوری کے بعد پاکستان کو قرض دینے کے خواہشمند ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ٹویٹ میں تصدیق کی کہ چین ترقیاتی بینک نے پاکستان کے لیے 700 ملین ڈالر کی سہولت کی منظوری دے دی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو اس ہفتے یہ رقم ملنے کی توقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی کثیر جہتی یا دو طرفہ عطیہ دہندگان کسی ایسے ملک کو قرض نہیں دیتا، جس کے دیوالیہ ہونے کا امکان ہو۔‘‘

ان کے مطابق گزشتہ سال کے سیلاب کی وجہ سے بڑی اورچھوٹی فصلیں بری طرح متاثر ہوئیں، جس سے خوراک کی قلت پیدا ہوئی، جبکہ خوراک کے درآمدی بل میں کافی اضافہ ہوا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر 4 سے 5 ارب ڈالر کے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کو فوری طور پر کلیئر نہ کیا گیا تو صورتحال دوبارہ قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

Advertisement

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’حکومت خوراک کی قلت سے بچنے کے لیے رمضان سے پہلے آئی ایم ایف کی قسط حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔‘‘

خیال رہے کہ مرغیوں کے لیے ڈی ایم او سویابین فیڈ کی کھیپ بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہے کیونکہ حکومت نے اسے نقصان دہ قرار دیا ہے، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت ڈالرز کی کمی کی وجہ سے کنسائنمنٹ کو کلیئر نہیں کر رہی۔

انہوں خبردار کیا کہ ہماری کنسائنمنٹس کی عدم منظوری کی وجہ سے چکن کی قیمت دو ماہ میں تقریباً دگنی ہو کر 240 روپے فی کلو سے بڑھ کر 480 روپے فی کلو ہو گئی ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو رمضان کے مقدس مہینے میں چکن کی قیمت مزید 800 روپے فی کلوگرام تک بڑھ سکتی ہے۔‘‘

آئی ایم ایف سے مذاکرات میں مثبت پیش رفت پہلے ہی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے، جو مسلسل دوسرے ہفتے بھی بہتر ہوتے ہوئے 66 ملین ڈالر اضافے کے ساتھ چار ہفتوں کی بلند ترین سطح 3اعشاریہ26 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔

اسٹیٹ بینک  کی تازہ ترین ہفتہ وار اپ ڈیٹ کے مطابق،  3 فروری 2023ء کو 9 سال کی کم ترین سطح 2اعشاریہ92 ارب ڈالر کے مقابلے میں زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ دو ہفتوں میں مجموعی طور پر تقریباً 369 ملین ڈالر بڑھ کر 17 فروری 2023ء کو 3اعشاریہ26 ارب ڈالر ہو گئے۔

مرکزی بینک کی جانب سے ڈالر کی فراہمی میں اضافے کے تناظر میں انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا انتخاب کرنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل بہتری آئی ہے۔

Advertisement

ایک ذریعے نے کہا کہ ’’انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی اضافی سپلائی نے مرکزی بینک کو مداخلت کرنے پر مجبور کیا ہے (سرپلس خریداری)‘‘۔

ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے دو ہفتوں میں غیرملکی قرضوں کی ادائیگی سمیت کوئی بڑی ادائیگی نہ کرنے کے بعد ذخائر میں بظاہر بہتری آئی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت کی غیر ملکی آمدنی، برآمدی آمدنی اورتارکین وطن کی ترسیلات زر، اس کی درآمدی ادائیگیوں سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

پاکستان کو 1اعشاریہ7 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا، جو جنوری 2023ء میں تارکین وطن کی ترسیلات زر کے ذریعے 1اعشاریہ9 ارب ڈالر تک پہنچا۔

جب سے حکومت نے روپیہ بمقابلہ ڈالر کی شرح مبادلہ پر اپنا کنٹرول ختم کر دیا اور مارکیٹ فورسز (زیادہ تر کمرشل بینکوں) کو شرح کا تعین کرنے کی اجازت دے دی ہے، آمدن میں اضافے کا رجحان برقرار ہے۔

اس کے مطابق، 3 فروری 2023ء کو کرنسی 10 دنوں میں 16اعشاریہ5 فیصد گھٹ کر 276اعشاریہ58 روپےفی ڈالر کی اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی، بلیک مارکیٹ گر گئی اور برآمد کنندگان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بالترتیب سرکاری چینلز کے ذریعے برآمدی آمدنی حاصل کی اور ترسیلات زر بھیجیں۔

انٹربینک مارکیٹ میں بہتر شرح مبادلہ کی دستیابی کو دیکھتے ہوئے فروری کے بعد ترسیلات زر کے 2اعشاریہ3 ارب سے 2اعشاریہ4 ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ، بیرون ملک مقیم پاکستانی عام طور پر رمضان کے دوران زیادہ ترسیلات زربھیجتے ہیں۔

Advertisement

قبل ازیں، بلیک مارکیٹ میں بہتر شرح مبادلہ نے کچھ تاجروں اور تارکین وطن پاکستانیوں کوغیر قانونی حوالہ اور ہنڈی چلانے والوں کے ذریعے رقوم وصول کرنے اور بھیجنے کی ترغیب دی۔

زیادہ ترشرائط کو پورا کرنے کے باوجود کچھ مختصر مدت کے مسائل ہیں، جنہیں آئی ایم ایف قسط کی منظوری سے پہلے حل کرنا چاہتا تھا۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بنیادی خسارہ 0اعشاریہ5 فیصد پر برقرار رکھے۔

آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے کہ مرکزی بینک شرح سود میں 400 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرے لیکن حکومت 200 بی پی ایس سے زیادہ اضافہ نہیں چاہتی کیونکہ اس سے نہ صرف حکومت کی ملکی قرضوں کی مالی اعانت میں اضافہ ہوا بلکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں بھی سست ہوئیں۔

آٹھ ماہ (مارچ تا اکتوبر 2023) کے لیے نیا سرچارج عائد کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف، آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بجلی کے بلوں میں لیوی کو اس وقت تک برقرار رکھے جب تک کہ حکومت کمپنی سے 800 ارب روپے کے گردشی قرضے کا تصفیہ نہیں کر لیتی۔

آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کی وجہ سے جی ڈی پی کی 2 فیصد کی شرح نمو مزید ایک فیصد سے نیچے چلی جائے گی۔ آئی ایم ایف قرضہ پروگرام میں مزید توسیع نہیں کرے گا لیکن موجودہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد نیا پروگرام پیش کر سکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق، ہیڈ لائن افراط زر 30 فیصد سے تجاوز کرنے کا امکان ہے اور اسی وجہ سے وہ  شرح سود میں مزید 17 فیصد اضافہ چاہتا ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف معیشت اور عام آدمی کے مفاد میں چھوٹ دینے کو تیار ہے لیکن غیر فنڈز کی سبسڈی قبول نہیں کرے گا۔

Advertisement

سینئر ماہرمعاشیات ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری مل جائے گی لیکن یہ ایک قلیل المدتی حل ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم آئندہ تین سال کے لیے حکومت کو اپنی بیرونی واجبات کی ادائیگی کے لیے اضافی 10 ارب ڈالر فی سالانہ درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’نہ تو وزیر خزانہ اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کے گورنر کو معلوم ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی۔‘‘ انہوں نے وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ وہ چارٹر آف اکانومی کی درخواست کرنے کی بجائے مالی ٹرانسپیرنسی ایکٹ اور ڈیبٹ ریٹائرمنٹ ایکٹ متعارف کرائیں اور قابل اعتماد کمیشن بنائیں۔ جس کی قابل پیشہ ور افراد جو نگرانی کریں گے کہ ان کارروائیوں کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی، جیسا کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں متعارف کرائے گئے قرض کی حد بندی ایکٹ کے ساتھ ہوا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کیے اور اخراجات کو کم کیے بغیر حکومت مشکل میں رہے گی۔

ان کے نزدیک آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے بعد بھی اگر سیاسی غیر یقینی صورتحال برقرار رہی تو شاید معاشی صورتحال بہتر نہ ہو۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں صرف منصفانہ اور شفاف عام انتخابات ہی ہمارے سیاسی اور معاشی مسائل کا بظاہر حل ہیں، کیونکہ کوئی بھی اس قسم کی صورتحال میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

ایک سرکردہ برآمد کنندہ اور بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا کہ شرح مبادلہ کے نظام کو غیر منجمد کرنے سے برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان پر بھی دباؤ کم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ’’بہت سے برآمد کنندگان اور تارکین وطن اب قانونی ذرائع سے رقم بھیج رہے ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمت 228 روپے سے بڑھ کر 270 روپے تک پہنچ گئی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ برآمد کنندگان کی پیداواری لاگت انرجی ٹیرف، خام مال کی قیمتوں اور مزدوروں کی اجرت میں اضافے کے ساتھ بڑھ گئی، لیکن پھر بھی شرح مبادلہ میں خاطر خواہ اضافے سے اس کی تلافی کسی حد تک ہو جائے گی۔

زبیر موتی والا کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کا سب سے زیادہ اثر ملکی صنعت پر پڑے گا جو کہ جی ڈی پی کا 92 فیصد ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یقینی طور پر، مایوس کن معاشی ماحول سے عام آدمی کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوتی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام اسے مزید خراب کرے گی، جس کا نتیجہ مقامی صنعت کی پیداوار پر ظاہر ہوگا۔‘‘

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ایس سی او فورم سے اسرائیلی بربریت کی مذمت ہونی چاہیے، اسحاق ڈار
پاکستان سے آم کی برآمدات شروع، پہلی کھیپ دبئی روانہ
کرغزستان سے محصور طلبا کی واپسی، خیبر پختونخوا حکومت کو فلائٹ کی اجازت نہ مل سکی
پاکستان تحریک انصاف ہتک عزت قانون کومسترد کرتی ہے، بیرسٹر گوہر
بارش کے دوران موبائل فون کا استعمال کتنا خطرناک ہے؟
الیکشن پٹیشنزکی سماعت میں تاخیر، حلیم عادل شیخ نے درخواست دائرکردی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر