Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

جسمانی سزا

Now Reading:

جسمانی سزا

ظفر اقبال گھر پر تھے جب انہیں قریبی نجی اسکول کے چپراسی کا فون آیا جہاں ان کا بیٹا 13 سالہ فیضان کلاس نہم کا طالبعلم ہے۔ جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ کے قصبے فتح پور میں اسکول ان کے گھر سے صرف آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر واقع  ہے۔

ظفر اقبال نے بول نیوز کو بتایا کہ ’’فون کال کے بعد میں پریشان ہو گیا کیونکہ کال کرنے والا کافی گھبرایا ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اطلاع دی گئی کہ میرے بیٹے کو اسکول کے استاد اور پرنسپل نے بے رحمی سے زدوکوب کیا ہے۔ فون پر میں اس کے رونے کی آواز واضح طور پر سن سکتا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’وہ اسکول کی طرف دوڑے اور فوری پہنچ گئے۔‘‘

Advertisement

ظفر اقبال نے غمزدہ لہجے میں کہا کہ ”لیکن مجھے پہنچنے میں تھوڑی دیر ہوگئی۔ جب وہ (پرنسپل اور استاد) فیضان کو بری طرح سے پیٹ رہے تھے، وہ اتنا تھک گیا تھا کہ اس سے رویا بھی نہیں جارہا تھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو اپنی طاقت اکٹھی کی اور رونے لگا، جب کہ استاد اور پرنسپل، جن کے لیے میری آمد غیر متوقع تھی، ایک قدم پیچھے ہٹے اور فیضان کو چھڑی سے مارنے کا جواز پیش کرنے لگے۔”

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ’’ میرے بیٹے کو محض اس کا مستقبل سنوارنے کی خاطر سزا دے رہے ہیں۔‘‘ اسی دوران فیضان بے ہوش ہو چکا تھا۔ جب پرنسپل امتیاز علی اور استاد واجد علی نے اس کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھی تو وہ اسکول کے میدان سے فرار ہو گئے۔ وہ اسکول (بیکن لائٹ اسکول) کی مدد سے اپنے بیٹے کو فتح پور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال لائے،جہاں انہیں معلوم ہوا کہ بیٹے کا دایاں بازو فریکچر ہو گیا ہے۔

میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد ظفراقبال نے فتح پور پولیس سے رابطہ کیا اور پرنسپل اور استاد دونوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ سیکشن 328-A (والدین یا اس کی دیکھ بھال کرنے والے دوسرے شخص کی جانب سے بارہ سال سے کم عمر کے بچے کی نمائش اور چھوڑ دینا) اور 34 (ایک مشترکہ نیت کو آگے بڑھانے میں متعدد افراد کی طرف سے کیے گئے اعمال) کے تحت مقدمہ درج کرایا۔

پولیس کو بلانے اور مقدمہ درج کرنے کے دوران ظفر اقبال پر ان کے اہل خانہ اور دیگر مقامی افراد کا دباؤ تھا کہ وہ واقعہ کی اطلاع نہ دیں۔ دوسری جانب اس نے جھکنے سے انکار کر دیا اور مقدمہ درج کرادیا۔ پولیس کے مطابق ملزمان کی عدالت نے ضمانت منظور کر لی ہے۔

ظفر اقبال نے وضاحت کی کہ ”شاید فیضان مئی میں ہونے والے جماعت نہم کے امتحانات نہ دے سکے کیونکہ وہ قلم پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیضان آئندہ سال صحت یاب ہو جائے گا اور امتحانات دے گا، لیکن وہ کبھی بھی دوبارہ اسکول نہیں جانا چاہے گا کیونکہ اس نے اور اس کے ہم جماعتوں نے دوران تعلیم شدید اذیتیں برداشت کی ہیں۔

Advertisement

محقق سیدہ سکینہ عابد نے کہا کہ ’’چھڑی سے مارنا بچوں کے اسکول چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہے، ایک اندازے کے مطابق ہر سال 22اعشاریہ8 ملین بچے کلاس روم میں سزاؤں کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، ملک میں اساتذہ کی جانب سے دی جانے والی سزا ثقافتی طور پر قابل قبول عمل ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم چھوڑ دیتی ہے یا ان کی تعلیم میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔

ظفر اقبال نے اعتراف کیا کہ بیٹے پر تشدد کرنے والوں کے خلاف پولیس کارروائی شروع کرنے پر انہیں مقامی دباؤ کا سامنا ہوا۔

تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ تعلیم کے حق میں مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی اسکولوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم دونوں شامل ہیں۔ یہ طویل المدتی استحکام اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ انفرادی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے بھی اہم ہے۔ تعلیم حتمی حق اور معاشرتی علم کا ذریعہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق تعلیم کے حق میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں، تعلیم کے حق کی ضمانت انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 26 کے ذریعے دی گئی ہے، اور تعلیم میں امتیازی سلوک کے خلاف 1960 کا یونیسکو کنونشن تعلیم کی فراہمی میں ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کی توثیق کرتا ہے۔

ماہر تعلیم اور مصنف سید شمیم اعظم کے مطابق حکومت نے بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کا قانون پاس کیا ہے لیکن تمام سرکاری اسکولوں میں آئے روز اس کی کسی نہ کسی طریقے سے خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک بل قومی اسمبلی نے 2021ء میں منظور کیا تھا اور اس سے قبل پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے اسکولوں میں جسمانی سزاؤں کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے گزشتہ سال دسمبر میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی تھی اور ان سے اسکولوں میں سزا کو ختم کرنے کی استدعا کی تھی۔ ان کی درخواست منظور کی گئی، چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ نے اسکولوں اور مدارس، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں میں مار پیٹ کرنے پر پابندی کا حکم جاری کیا۔

مظفر گڑھ کے ایڈووکیٹ نسیم عباس نے کہا کہ ’’کسی عمل کو غیر قانونی قرار دینا ایک الگ بات ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے کیونکہ غیر قانونی کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی سزا بھی ہونی چاہیے۔‘‘

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسکولوں میں جسمانی سزا دینے کا عمل عدالت میں ایک متنازع مسئلہ رہا ہے کیونکہ پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 89 والدین، سرپرستوں اور اسکول کے اہلکاروں کو سزا سے تحفظ دیتا ہے اور انہیں نیک نیتی سے بچوں کو ’’مارنے‘‘ کی اجازت دیتا ہے۔‘‘

بل کی حامی، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے دعویٰ کیا کہ 2021ء میں منظور ہونے والے بل میں خامیوں کو دور کیا گیا اور قصورواروں کے لیے سزا تجویز کی گئی۔

اب تک ظفر اقبال اس مقدمے میں ثابت قدم رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ مجرموں کو سزا دلانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔

ظفر اقبال نے کہا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہاڑی میں ایک بچے کے والدین نے اس مدرسے کے استاد کو معاف کر دیا جس نے سبق یاد نہ کرنے پر ان کے بیٹے کو مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ مجھے بھی یہ بتایا گیا کہ فیضان کو بھی سبق یاد نہ کرنے پر مارا پیٹا گیا تھا۔‘‘

تاہم، وہ فیضان کے استاد اور پرنسپل کو دوسروں کے لیے سبق بنانے کے ارادے پر قائم ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
امریکی صحافی کرسٹینا گولڈ بم نے پاکستانی اسٹریٹ پرفارمرز کی زندگیاں داؤ پر لگا دیں
قومی کھلاڑی ہیڈ کوچ گیری کرسٹن سے خوش
’’انٹرنیٹ دوست، انٹرنیٹ زبردست اقدام‘‘ کے عنوان سے رونمائی ورکشاپ کا انعقاد 
وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی اٹلی کی سفیر سے ملاقات
لندن ہائی کورٹ، وکی لیکس کے بانی کی امریکہ حوالگی کا معاملہ ٹل گیا
نائب وزیراعظم اسحاق ڈارقازقستان کےشہر آستانہ پہنچ گئے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر