اس وقت پاکستان میں ٹیکس اسٹیمپ کے بغیر 165 سگریٹ برانڈز فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک غیر قانونی سگریٹ تجارت کا حجم 56 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
اس بات کا انکشاف اپسوس پاکستان نے ‘پاکستان سگریٹ مارکیٹ اسیسمنٹ 2024 ‘ کے عنوان سے ریسرچ رپورٹ میں کیا۔
اس تحقیقاتی ریسرچ کیلئے بین الاقوامی مروجہ طریقہ کار کے تحت نمایاں شہری و دیہی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دوکانوں کا سروے کیا گیا۔
ریسرچ رپورٹ میں مارکیٹ کے خدوخال میں نمایاں تبدیلی کا جائزہ پیش کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ قانونی سگریٹ برانڈز کے حجم میں غیر معمولی کمی اور غیر قانونی سگریٹوں کی موجودگی میں حیران کن اضافہ سمیت ایسے تمام عوامل نہ صرف قومی خزانے پر شدید اثر انداز ہو رہے ہیں بلکہ ان سے قانونی کاروباروں کے استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
ریسرچ رپورٹ کے مطابق کم قیمت کے غیر ڈیوٹی ادا شدہ اور اسمگل سگریٹوں کی ملک بھر میں با آسانی دستیابی، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عمل درآمد نہ ہونا، حکومت کی مقرر کردہ حد سے کم قیمت پر سگریٹوں کی فروخت، سگریٹ کی قیمتوں میں عدم توازن اور ایسے متعددمتعلقہ مسائل کی وجہ سے ٹیکس ادا کرنے والی قانونی سگریٹ انڈسٹری کے مارکیٹ شئیر میں کمی ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔
اپسوس نے ان علاقوں کے سروے کے دوران وہاں پرغیر ڈیوٹی ادا شدہ اور سمگل سگریٹوں کی دستیابی، ان کی قیمتوں اور ان کے حجم کا جائزہ لیا۔ ساتھ ہی ان علاقوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم اور کم از کم مقررہ قیمت پر فروخت کے قانون کی تعمیل، دستیاب سگریٹوں کی قیمتوں میں عدم تواز ن اور مارکیٹوں میں ایک نئے رجحان کا بھی احاطہ کیا۔
اس وقت 37 نئے سگریٹ برانڈز کے اضافے سے بغیر ٹیکس سٹیمپ کے برانڈز کی مجموعی تعداد 165 ہو گئی ہے اور سال بہ سال 6 برانڈز ٹریک اینڈ ٹریس لسٹ میں شامل کیے جا چکے ہیں تاہم متعدد ایسے واقعات مشاہدے میں آئے ہیں کہ وہی برانڈز بغیر سٹیمپ کے بھی مارکیٹوں میں فروخت کیلئے دستیاب ہیں۔
زمینی حقائق کی وجہ سے ٹریک اینڈ ٹریس نظام ابھی تک مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، اس وقت 104 سگریٹ برانڈز حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم قیمت سے بھی کم پر مارکیٹوں میں دستیاب ہیں جبکہ 45 اسمگل شدہ سگریٹ برانڈز ایسے ہیں جو اس مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت ہو رہے ہیں۔
ملک بھر میں مقررہ قیمتوں سے کم پر فروخت ہونے والے سگریٹ برانڈز کا مجموعی حجم 53 فیصد بنتا ہے۔
مارکیٹ میں دستیاب سگریٹوں کی قیمتوں میں عدم توازن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک معروف برانڈ جو مقامی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور جس پر حکومت کو ٹیکس بھی ادا نہیں کیا جاتا۔
اس کا سگریٹ پیک مارکیٹوں میں 120 روپے پر باآسانی دستیاب ہے جبکہ ایک اور اسمگل شدہ مشہور برانڈ کا سگریٹ پیک 165 روپے پر دستیاب ہے۔
اس کے مقابلے پر معروف برانڈز جن پر حکومت پاکستان کو تمام ڈیوٹیز اور ٹیکس ادا کیے جاتے ہیں وہ 220 اور 550 روپے پر دستیاب ہیں۔
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سگریٹ مارکیٹ کا 95 فیصد ایسے سگریٹوں پر مشتمل ہے جن کی قیمت 65 روپے سے 220 روپے فی پیکٹ کے درمیان ہیں۔
مقامی سطح پر تیار ہونے والے متعدد برانڈز جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا، وہ 25 اور 30 سگریٹوں کی پیکنگ میں بھی با آسانی دستیاب ہیں۔
اس سے نہ صرف دوکانوں پر کھلے سگریٹوں کی فروخت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے بلکہ 20 سگریٹوں کے پیک کے مقابلے میں پرچون فروشوں کو زیادہ منافع حاصل ہو رہا ہے۔
مارکیٹ کے رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے اپسوس کا اپنی تحقیقاتی سٹڈی میں کہنا تھا کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو مستقبل میں بھی مقامی غیر ٹیکس ادا شدہ سگریٹ تیار کنندگان اور سمگلروں کا مارکیٹوں پر قبضہ برقرار رہے گا جبکہ ایسی سگریٹ ساز کمپنیاں جو باقاعدگی سے ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کرتی ہیں،انکے مارکیٹ شیئر میں مزید کمی واقع ہو گی اور یہ شیئر غیر قانونی سگریٹ سیکٹر کو منتقل ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News