انڈونیشیا نے گھریلو صارفین کو بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے جنوری میں کوئلے کی برآمدات پر پابندی لگا دی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وزارت توانائی کے ایک سینئر اہلکار نے کوئلے کی برآمدات پر پابندی سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ گھریلو صارفین کو بجلی فراہم کرنے والے پاور پلانٹس میں کم سپلائی بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ کا باعث بن سکتی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ملک انڈونیشیاتھرمل کوئلے کا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے جس نے 2020 میں تقریباً 400 ملین ٹن کوئلہ برآمد کیا تھا۔ اس کے سب سے بڑے گاہک چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا ہیں۔
انڈونیشیا میں ایک نام نہاد پالیسی نافذ ہے جس کے تحت کوئلے کے کان کنوں کو سالانہ پیداوار کا 25 فیصد ریاستی یوٹیلیٹی کو 70 ڈالر فی ٹن کے حساب سے فراہم کرنا ہوتا ہے جو کہ موجودہ مارکیٹ کی قیمتوں سے نہایت کم ہے۔
وزارت توانائی میں ڈائریکٹر جنرل معدنیات اور کوئلہ رضوان جمال الدین کہتے ہیں کہ اگر کوئلے کی برآمد پر پابندی نہ لگائی جائے تو 10 ہزار 850 میگاواٹ کے تقریباً 20 پاور پلانٹس بند ہو جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ضمن میں اگر سٹریٹجک اقدامات نہ کیے گئے تو بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ ہو سکتا ہے۔
رضوان نے کہا کہ پاور پلانٹس کو ہر ماہ کوئلے کی سپلائی 25 فیصد سے کم تھی، اس لیے سال کے آخر تک کوئلے کے ذخیرے کا خسارہ تھا جس کے سبب پابندی لگائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پابندی سے متعلق اندازہ 5 جنوری کے بعد کیا جائے گا۔
دوسری جانب انڈونیشین کول مائننگ ایسوسی ایشن ( آئی سی ایم اے) نے وزیر توانائی سے برآمدات پر پابندی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پابندی کاروباری برادری سے بات کیے بغیر عجلت میں عائد کی گئی۔
آئی سی ایم اے کے چیئرمین نے کہا کہ وسیع پیمانے پر برآمد ات پر پابندی لگ بھگ 38 سے 40 ملین ٹن کی ماہانہ کوئلے کی پیداوار کو متاثر کرسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں انڈونیشیا نے جنوری کے مہینے میں تقریباً 30 ملین ٹن کوئلہ برآمد کیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News