سعودی عرب اور تھائی لینڈ میں کم و بیش 33 برس بعد سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہوگئے ہیں۔ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات 1989ء میں منقطع ہوئے تھے جب تھائی لینڈ کے ایک شہری نے ایک سعودی شہزادے کا 20 ملین ڈالر مالیت کا مشہور نیلا ہیرا چُرا لیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سفارتی تعلقات میں یہ بحالی تھائی لینڈ کے وزیراعظم پریوت چان اوچا کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے تناظر میں ہوئی ہے۔ تھائی وزیراعظم دورے کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملے اور اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی روابط کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔
1989ء میں ایک سعودی محل سے قیمتی جواہرات کی چوری سے ایک ایسا سفارتی بحران شروع ہوا جو لگ بھگ تین دہائیوں تک جاری رہا اور جس نے کئی زندگیاں بھی ختم کردیں۔
سعودی شہزادہ فیصل اور ان کی اہلیہ تین ماہ کے لیے چھٹیوں پر گئے ہوئے تھے اور تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والا کریانگ کرائی نامی شخص محل میں خاکروب تھا۔ ایک شام اُس نے شہزادے کی خواب گاہ سے جواہرات چرائے جن کی قیمت اُس وقت کوئی دو کروڑ ڈالر کے قریب تھی۔
بعد میں سعودی حکام نے بتایا کہ چرائے گئے سامان میں کئی طلائی گھڑیاں اور کئی یاقوت بھی شامل تھے۔
کریانگ کرائی نے چوری کیا ہوا سامان محل میں کئی جگہوں پر چھپا دیا اور ایک ماہ تک وہ ان جواہرات کو اپنے سامان میں چھپا کر تھائی لینڈ میں اپنے گھر بھیجتا رہا۔
تھائی کسٹم حکام رشوت کے عوض چوری شدہ مال کو ایئرپورٹ سے بغیر تلاشی نکالتے رہے۔ جب تک اس چوری کا علم ہوتا تب تک کریانگ کرائی تھائی لینڈ فرار ہوچکا تھا مگر جنوری 1990ء میں اُسے سعودی حکام کی اطلاع پر گرفتار کرلیا گیا۔
جواہرات اور نگینوں میں سے کچھ وہ فروخت کر چکا تھا اور کچھ اس سے برآمد کر لیے گئے لیکن سعودی حکام نے برآمد مال کو صرف 20 فیصد بتایا یعنی 80 فیصد ابھی بھی کم تھا جبکہ لوٹائے گئے کئی جواہرات نقلی تھے۔
سب سے زیادہ پریشانی انڈے کے سائز کے 50 قیراط وزنی ایک نیلے ہیرے کی تھی کیونکہ نیلے رنگ کے ہیرے دنیا کے نایاب ترین اور قیمتی ترین جواہرات میں سے ہیں۔
کریانگ کرائی کو تقریباً تین سال قید کی سزا ہوئی مگر اس کیس نے ایک خونی رخ اختیار کرلیا۔ فروری 1990 میں بینکاک میں سعودی سفارتخانے کے ویزا سیکشن کے 3 اہلکاروں کو مار دیا گیا۔
اس کے کچھ ہفتے بعد سعودی کاروباری شخصیت محمد الرویلی کو گمشدہ سامان کے بارے میں پتہ لگانے بنکاک بھیجا گیا مگر انہیں بھی اغوا کرلیا گیا اور آج تک ان کا پتا نہیں چل سکا۔
سعودی حکومت نے سفارتکاری میں 35 سال کا تجربہ رکھنے والے محمد سعید کھوجہ کو تفتیش کی نگرانی کے لیے بینکاک بھیجا گیا۔ وہ کھلے عام تھائی پولیس پر برآمد شدہ جواہرات چرانے اور سعودی اہلکاروں کو قتل کرنے کا الزام عائد کرتے تھے۔
اُن کی بات درست ثابت ہوئی۔ پولیس نے گمشدہ جواہرات میں سے کچھ خرد برد کر لیے تھے اور جس ڈیلر نے اصلی جواہرات فروخت کرکے نقلی جواہرات برآمد کرائے تھے پولیس نے اُس سے بھتہ لے کر اُس کی بیوی اور بیٹے کو بھی مار دیا تھا۔ اِس جرم میں ملوث پولیس چیف انچارج شالور کرڈتھیس نے 20 سال جیل میں گزارے۔
اس چوری کے بعد سے سعودی عرب میں تھائی افرادی قوت دو لاکھ سے کم ہو کر صرف 15 ہزار رہ گئی تھی جس سے تھائی معیشت کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News