اسٹیک ہولڈرز کا دعویٰ ہے کہ روپے کی قدر میں بے مثال کمی اور مہنگائی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں خاطر خواہ اضافے کی وجہ سے ادویہ سازی کی صنعت بند ہونے کے دہانے پر ہے۔
مقامی اور کثیرالقومی ادویہ ساز کمپنیوں نے ڈالر اور مہنگائی کی بلند سطح کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی بڑے پیمانے پر گراوٹ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور اجرتیں پہلے ہی پیداواری لاگت میں خاطر خواہ اضافے کا سبب بن چکی ہیں۔خیال رہے کہ کم از کم 95 فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے اور کووڈ-19 وبا اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے فریٹ چارجز پہلے ہی 1ہزار ڈالر سے بڑھ کر 9ہزار ڈالر ہو چکے ہیں۔
اب، متعدد ادویہ ساز کمپنیاں روپے کی قدر میں انتہائی کمی اور عالمی افراط زر کے تناظر میں ترسیل کی لاگت میں بے انتہا اضافے کی وجہ سے خام مال درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان کو روزانہ استعمال کی جانے والی ادویات بشمول جان بچانے والی ادویات کی 40 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ نقد رقم کی کمی کی شکار دوا ساز کمپنیوں کے پاس خام مال ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اسٹیک ہولڈرز نے قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ادویات کے علاوہ تمام اشیاء افراط زر کی وجہ سے پہلے ہی مہنگی ہو چکی ہیں۔
فیروزسنز لیبارٹریز لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عثمان خالد وحید نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی اور فریٹ چارجز نے درآمدی خام مال کی ترسیل کی لاگت میں کافی اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’چونکہ پٹرولیم کی قیمتوں، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے کاروبار کرنے کی لاگت پہلے سے ہی زیادہ ہوچکی ہے، خام مال کی ترسیل کی لاگت میں اضافے نے ادویہ سازی کے شعبےکے لیے پیداوار جاری رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ’’ہمیں ادویات کی پیداوار جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ عالمی سطح پر روپے کی قدر میں کمی اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تمام پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہمارے پاس پیداوار بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا، اگر ادویات کی قیمتوں میں اس کے مطابق اضافہ نہ کیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمپنیاں بہت اہم ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف ماہر ادویات جیسے آنکولوجی ادویات، اہم نگہداشت اور زندگی بچانے والی ادویات تیار کرتی ہیں بلکہ ملک میں جدت اور سرمایہ کاری بھی لاتی ہیں۔‘‘
عثمان خالد وحید نے کہاکہ ’’موجودہ حالات ادوایہ سازی کی صنعت کے قابو سے باہر ہیں اور ادویات کی تیاری اور ان کی دستیابی کو یقینی بنانا ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔‘‘
چیسی پاکستان کے جنرل منیجر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر عمر مسعود نے کہا کہ مزدوروں کی اجرت اور پٹرولیم، بجلی، گیس اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے لیکن ادویات کی قیمتوں میں کوئی نظرثانی نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو صنعت کے لیے پیداوار جاری رکھنا ناقابل عمل ہو گا۔
خیال رہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم فارما بیورو نے وفاقی وزیر صحت، سیکرٹری اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو کو خط لکھ کر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست کی ہے۔
اس خط میں فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹمی حق نے کہا کہ وہ خوفناک معاشی حالات سے بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ بڑھتے ہوئے افراط زر نے معیشت کے ہر ایک طبقے کو متاثر کیا ہے، جس کی وجہ روپے کی قدر میں زبردست کمی، مہنگائی اور زرمبادلہ کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اس سب کا مقامی ادویہ سازی کی صنعت پر تباہ کن اثر پڑرہا ہے، جو ملک میں ادویات کی تیاری اور دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے خام مال کی درآمد پر انحصار کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے موثر جُز(ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزاء) کے خام مال کی قیمتوں میں وبائی امراض کے پھیلنے کے بعد سے بین الاقوامی منڈیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایندھن، بجلی، مال برداری اور پیکنگ کے سامان جیسے تمام پیداواری عوامل میں غیر معمولی اضافہ اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 67 فیصد سے زائد کی حالیہ زبردست کمی نے موجودہ قیمتوں پر ادویات کی پیداوار مشکل بنا دی ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دواسازی کی صنعت نے اخراجات برداشت کرتے ہوئے صحت عامہ کے بہت سے بحرانوں اور آفات کے دوران زندگی بچانے والی ادویات کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنا کر ایک انتہائی ذمہ دارانہ اور مریض دوست کردار ادا کیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ’’ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) سمیت دیگر نمائندہ صنعتی اداروں کے ساتھ فارما بیورو نے مسلسل اور بار بار وفاقی حکومت اور ڈریپ (DRAP) سے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے اور ہر ممکن کوشش کرنے کی درخواست کی۔ دواؤں کی مسلسل اور بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے، جس میں ملک بھر میں قیمتوں میں اضافہ بھی شامل ہے‘‘۔
اس میں کہا گیا کہ ’’عوام اور صنعت پر مہنگائی کے اثرات کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے اس بے حسی کے رویے کے نتیجے میں کئی رکن کمپنیوں نے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کر دیا ہے۔ اس کا مطلب پلانٹس کی بندش کے بعد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا انخلا اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری ہے، اورجیسا کہ ہماری رکن کمپنیاں مکمل طور پر دستاویزی ہیں،لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیکسوں اور دیگر محصولات کی مد میں بھاری نقصان ہوگا۔
عائشہ ٹمی حق کے مطابق، پاکستان میں فارما انڈسٹری حد سے زیادہ ریگولیٹ ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کاروبار کرنے کے بنیادی حق کے مطابق کام نہیں کر پا رہی ہے جس کی آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔
خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ روپیہ کی قدر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوری ہے اور کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں ماہ جنوری میں مہنگائی میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 27اعشاریہ6 فیصد اضافہ ہوا۔
فارما بیورو نے خبردار کیا کہ’’ حکومت کو ہماری تمام گزارشات، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان سے ملاقاتوں کے باوجود اس معاملے سے نمٹنے کے لیے قطعی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ حکومت اور ڈریپ کی جانب سے اس بے حسی کے نتیجے میں صنعت کے پاس پیداوار بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں دواؤں کی بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہو جائے گی۔‘‘
ولشائر گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین امجد علی جاوا نے کہا کہ عالمی سطح پر مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث پٹرولیم کی قیمتوں، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور درآمدی خام مال کی اضافی قیمتوں نے موجودہ قیمتوں پر ادویات کی فراہمی ناممکن بنا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ان عوامل کی وجہ سے پیداواری لاگت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔چنانچہ، ادویات کی قیمتوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے تاخیر ادویہ سازی کی صنعت کی بندش کا سبب بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعت کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو قیمتوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خام مال کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کو بروقت کھولنا یقینی بنانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو خام مال کی مقامی پیداوار میں سہولت فراہم کرکے پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے ایک طویل المدتی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’’فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزاء کی فراہمی میں 10 مقامی کمپنیوں کا حصہ محض 5 فیصد ہے۔ دوا ساز کمپنیاں چین اور بھارت سے ’’ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزاء کا 95 فیصد درآمد کرتی ہیں۔‘‘انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ ’’ایکٹو فارماسیوٹیکل اجزاء کی مقامی تیاری میں سہولت فراہم کرے تاکہ دباؤ کی شکار دواسازی کی صنعت کو کچھ راحت ملے۔
انہوں نے حکومت کو کیمیکلز کی مقامی پیداوار کے لیے نیفتھا کریکنگ پلانٹس لگانے میں سہولت فراہم کرنے کی تجویز بھی دی۔انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان دیگر غیر ہائیڈرو کاربن ممالک کی طرح اپنے نیفتھا کریکر بنا سکتا ہے، جن میں بھارت، سنگاپور، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی شامل ہیں۔
امجد علی جاوا نے کہا کہ نیفتھا کریکر اور اس سے منسلک بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنے اور بنانے کی لاگت 10 سے 12 ارب ڈالر ہے۔ کوئی مقامی کمپنی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر سکتی۔ پاکستان چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے تحت یا تو چینی سرمایہ کاری حاصل کر سکتا ہے یا آئل ریفائنری میں پہلے نیفتھا کریکنگ پلانٹ اور اس سے منسلک یونٹس کے قیام کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ مقامی مینوفیکچرنگ کے ذریعے کیمیکلز کی درآمد کو کم کرنے میں مدد کرے گا اور انتہائی ضروری براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ درآمدی متبادل اور زائد مقدار کی برآمد سے تجارتی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News