کیفیفورنیا:کلیئرویونامی کمپنی نے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کا پہلاچہرہ شناخت کرنے والا سرچ انجن بنا یا ہے جو چہرے کو دیکھ کراس کی ساری معلومات آپ تک پہنچا دے گا۔
واضح رہے کہ یہ ایک متنازعہ کمپنی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اس انجن کو قانونی حیثیت دلانے کے لئے کوشاں تھی لیکن اب اس انجن کو اجازت مل گئی ہے۔ تاہم اس کے لئے ایک بھاری رقم فیس کی مد میں ادا کرنا ہوگی۔
اس سرچ انجن کا پورا نام کلیئر ویو اے آئی ہے اور سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ اس نے امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اشتراک بھی کیا ہے۔
اس کمپنی نے پہلے آئی فون کے لئے ایک گیم اور ایپ بنائی تھی جس میں کھیلنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے پیلے بالوں کو اپنی تصاویر پر لگا تے تھے۔
پھر اس کمپنی نے سوشل میڈیا صارفین کی راز داری کو ختم کرتے ہوئے تقریباً دس ارب تصاویر اپنے ڈیٹا بیس میں شامل کر لی ہیں جسے ڈیٹا اسکریپنگ کہا جاتا ہے۔ اور اب اس سرچ انجن کے تحت وہ کسی کی بھی پروفائل تک باآسانی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
کلیئرویو کے سربراہ ہوان تون تھاہ نے خبروں کی ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہو ئے کہا کہ ان یہ ایجاد اپنی نوعیت کا پہلا پلیٹ فارم ہے جو بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ ڈیٹا کو استعمال کرے گا اوربعد ازاں اس ڈیٹا کو چہرے کی شناخت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
کمپنی کے اس عمل پر انسانی حقوق اور پرائیویسی کے ماہرین نے تشویش ظاہر کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ نئی ٹیکلنالوجی کے تناظر میں تمام قانوں ساز ادارے سو شل میڈیا صارفین کی ذاتی معلومات کا تحظ یقینی بنائیں۔ جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے بھی اس پر آواز اٹھائی ہے اور اینسٹی انٹر نیشنل کی رکن میٹ محمودی کاکہنا ہے کہ جس شے کی حفاظت کی جانی تھی اب کمپنیاں اس پر اپنا حق جتا رہیں ہیں اور یہ بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔
فیس بک کے سابق ماہر اور مصنف راجر مک نامی کا کہنا ہے کہ سرچ انجن کے نام پر کلیئر ویو جو کچھ کر رہی ہے وہ ہمارے کمزور کاپی رائٹ اور پیٹنٹ نظام کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔
جبکہ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ سرچ انجن عام استعمال کے لئے نہیں ہے بلکہ اسے خاص مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے۔
اس سرچ انجن کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسے امریکا میں کئی قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کریں گے، اس میں تقریباً 1803 مختلف ایجنسیاں اور ادارے شامل ہیں جن میں ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ادارے سمیت دیگر محکمے بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News