روس کا ایک نسبتاً نامعلوم مقام کئی دہائیوں سے مختلف قسم کی غیر معمولی اموات کا باعث بن رہا ہے۔
کامچٹکا جزیرہ نما، جسے موت کی وادی بھی کہا جاتا ہے، روس کے مشرق بعید میں واقع یہ ایک آتش فشاں ناقابل یقین حد تک مہلک ہے۔
اگرچہ ناہموار پہاڑوں کو برف سے ڈھانپنے والی جگہ بے شک خوبصورت لگ سکتی ہے، لیکن جو بھی اس کی چھوٹی چھوٹی وادیوں میں سے کسی میں داخل ہوتا ہے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا جاتا۔
کامچٹکا جزیرہ نما کو جانوروں کے قبرستان کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن یہ انسانوں کے لیے بھی خطرناک ہے، اسی لیے اسے سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
جب برف پگھلتی ہے تو مختلف اقسام کے جانور خوراک اور پانی کی تلاش میں نکلتے ہیں، جن میں سے بہت سے جلد ہی مر جاتے ہیں۔
جب شکاری جانور، جیسے کہ بھیڑیے آسان خوارک کی تلاش میں یہاں تک پہنچتے ہیں وہ بھی زندہ نہیں رہ پاتے۔
اس پوری بات کا سب سے ڈراونا حصہ یہ ہے کہ یہ لاشیں قدرتی طور پر برف کی وجہ سے محفوظ رہتی ہیں اور ان پر بیرونی چوٹوں یا بیماریوں کا کوئی نشان نہیں نظر نہیں آتا۔
زمین کے اس حصے کو برسوں تک دریافت نہیں کیا گیا تھا، 20ویں صدی میں بھی یہ علاقہ غلطی سے دریافت ہوا تھا۔
مقامی کہانیوں کے مطابق 1930 کی دہائی میں دو شکاری اس جگہ پر آئے اور ان کی ملاقات مردہ جانوروں سے ڈھکی ہوئی بنجر زمین سے ہوئی۔ کئی منٹ تک شدید سر درد کا سامنا کرنے کے بعد دونوں یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے، جس سے ان کی جان بچ پائی۔
اس کہانی نے علاقے میں زبردست دلچسپی پیدا کی ہے اور 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں بہت سے ایڈونچر کے متلاشیوں نے وادی کا دورہ کیا، لیکن ان میں سے کوئی بھی واپس نہ آسکا۔
مقامی لوگوں کا اندازہ ہے کہ اب تک وہاں 80 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سرکاری موقف میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ وادی موت کو 1975 تک دریافت نہیں کیا گیا تھا، یہاں تک کہ ولادیمیر لیونوف کی سربراہی میں آتش فشاں کے ماہرین کے ایک گروپ نے یہ جگہ دیکھی۔ ان کے مطابق جہاں تک نظر دیکھ سکتی تھی مردہ جانوروں نے ان کا استقبال کیا۔
1975 سے 1983 تک کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جانور آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ آتش فشاں ہائیڈروجن سلفائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور کاربن ڈسلفائیڈ کا مہلک مرکب خارج کرتا ہے جو وادی کے نشیبی علاقوں میں بغیر کسی ہوا کے ان کی موت کا سبب بنتا ہے۔
پرندے عام طور پر اس کا پہلا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ وہ پگھلی ہوئی ندی میں پانی پینے آتے ہیں۔ پھر لاشیں لومڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں جو وادی میں شکار کے لیے آتی ہیں اور اپنے ساتھ بڑے شکاریوں کو لاتی ہیں۔
مہلک گیسیں گلنے سڑنے کے ذمہ دار بیکٹیریا کو بننے سے روکتی ہیں جس کے نتیجے میں مردہ جانوروں کی لاشیں محفوظ رہتی ہیں۔
کچھ کا خیال ہے کہ وادی میں گیسیں جزوی فالج کا سبب بن سکتی ہیں، تاہم اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
جس چیز کی تصدیق کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اکثر سر درد، بخار اور کمزوری کا شکار ہوتے ہیں جو موت کا باعث بن سکتے ہیں۔
اگرچہ اس بار بہت ساری سائنسی تحقیق کی گئی ہے، لیکن پھر بھی وادی کے بارے میں غیر مصدقہ کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں۔
مثال کے طور پر، جانوروں کی لاشیں مبینہ طور پر وادی سے باقاعدگی سے کوئی لے کر جاتا ہے، حالانکہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون کرتا ہے۔
ایک اور حل نہ ہونے والا معمہ 1970 کی دہائی کے وسط میں پیدا ہوا۔ لیونوف کے ایک طالب علم وکٹر ڈیریگین کے مطابق جس نے وادی کی دریافت میں مدد کی تھی، سوویت فوجی حکام نے ایک ہیلی کاپٹر میں دورہ کیا، کچھ غیر معمولی نمونے اکٹھے کیے، اور فوراً روانہ ہوگئے۔
یہ کہانیاں سچ ہیں یا نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موت کی وادی اب بھی خطرناک ہے۔
اگرچہ یہ زائرین کے لیے بند ہے، لیکن اسے محفوظ فاصلے پر نصب آبزرویشن ڈیک سے دیکھا جا سکتا ہے۔
بدنام زمانہ علاقے کو دیکھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کا دورہ کریں جہاں سے آپ جزیرہ نما کے دیگر حصوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News