Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

اسحاق ڈار:  نجات دہندہ یا انتقام الہٰی

Now Reading:

اسحاق ڈار:  نجات دہندہ یا انتقام الہٰی

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر خزانہ کی توجہ معمول کے مطابق شرح مبادلہ کو کنٹرول کرنے پر مرکوز رہی، جس کی وجہ سے معیشت ڈوب رہی ہے

اسحاق ڈار چوتھی بار وزارت خزانہ کے سربراہ بنے ہیں۔ اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جب بھی وہ اس عہدے پر فائز ہوئے، انہوں نے بنیادی طور پر شرح مبادلہ کو کنٹرول کرنے پر توجہ مرکوز کی، جو ہمیشہ خلاف منشاء و مقصود ثابت ہوا، جس سے ملک اور اس کے عوام کے مصائب میں اضافہ ہوا۔

2013ء-17ء کے دوران، انہوں نے ثابت قدمی سے کرنسی مارکیٹ میں روپیہ کا برائے نام شرائط پر دفاع کیا، افراط زر کے مطابق کرنسی کے 26 فیصد اضافے کی ہدایت کی۔

اس نے سب سے زیادہ قابل پیش گوئی نتائج پیدا کیے۔ درآمدات سستی ہونے سے درآمد کنندگان، صنعت کار درآمدی خام مال کو ملکی منڈیوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے، اور صارفین کے خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ لیکن برآمد کنندگان نے اپنی مسابقت کھو دی، اور برآمدات میں مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 30 فیصد سے زائد تک کمی آگئی۔

Advertisement

اس طرح، اسحاق ڈار نے اس کھیل میں جیت اور ہار کا انتخاب کرنے والوں کی واضح میراث چھوڑی۔ انہوں نے طویل المدتی واجبات ، صنعتی اور برآمدی پیداواری صلاحیت میں کمی کی قیمت پر قلیل المدتی استحکام اور کھپت میں تیزی پیدا کی۔

انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1980ء کی دہائی کے اوائل میں کیا اور اس کے بعد وہ لاہور سے دو بار قومی اسمبلی اور پنجاب سے چار بار سینیٹ کے لیے منتخب ہو چکے ہیں۔

اب وہ نواز شریف کے قریبی رشتہ دار ہیں، اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی ہر حکومت کا لازمی حصہ رہے ہیں جو کہ بدنام زمانہ یلو کیب اسکیم جس پر بدعنوانی کے الزامات تھے، مہنگے توانائی کے سودے اور ضرورت سے زیادہ ٹیکس اور ایمنسٹی اسکیمیں ،موٹرویز، جیسے منصوبوں کے لیے معروف ہے۔

جون 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) نے حکومت تشکیل دی تو اسحاق ڈار تیسری بار وفاقی وزیر خزانہ بنے، اور انہیں ریونیو، اقتصادی امور، شماریات اور نجکاری کے اضافی قلمدان دیے گئے۔

جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے انہیں وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ یہ اس وقت ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بھی اسی عدالت نے مشہور زمانہ پاناما پیپرز کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔

اسحاق ڈار کی ذیلی وراثت ماضی قریب کی چند مثالوں کے ساتھ پالیسیوں میں لاپرواہی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اول، ایک وسیع پیمانے پر خستہ حال ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کو ایک جامع اوور ہال کی ضرورت ہے، جو طویل عرصے سے زیرالتوا اصلاحات کی جانب معمولی پیش رفت کرسکی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ٹیکس فائلرز کی تعداد کم ہے، یہ پیغام واضح ہے کہ ریاست ٹیکس چوروں کو اپنے واجبات ادا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔

Advertisement

دوم، پاکستان کے تقریباً ایک دہائی پر محیط توانائی کے بحران میں حال ہی میں بہتری کے کچھ آثار دکھائی دیے ہیں، اس لیے کہ بڑے پیمانے پر قابل مذمت  بجلی کی بندش کے گھنٹوں میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ تاہم، یہ بتانا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ حقیقی بہتری ہے یا انتخابات سے قبل ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے ایک سوچا سمجھا اقدام۔

وہ عوامی سطح پر پاکستان کی معیشت پر اعتماد بحال کرنے کا سہرا لیتے رہے ہیں۔ تاہم، ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے شماریات ڈویژن، خاص طور پر پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کو اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کے لیے استعمال کیا تاکہ ایک مثبت تاثر قائم کیا جا سکے۔ اس سے پہلے 2014/15ء میں اور پھر 2015/16ء میں متعدد ماہرین اقتصادیات نے ان کی وزارت کی جانب سے جاری اقتصادی ترقی کے اعداد و شمار پر سوال اٹھائے تھے۔

انہیں بھاری بیرونی قرضہ حاصل کرنے کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے، جو ان کی زیرنگرانی جون 2013ء میں تقریباً 61 ارب ڈالر سے بڑھ کر جون 2017ء میں 83 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ انہوں نے غیر قرض پیدا کرنے والے آلات کے ذریعے ذخائر کو بڑھانے کے لیے تکلیف دہ طویل مدتی اقدامات کے مقابلے میں سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے قلیل مدتی اقدامات کو ترجیح دی۔

بطور وزیر خزانہ اپنے پہلے چار برس کے دوران اسحاق ڈار نے 35 ارب ڈالر مالیت کے مجموعی بیرونی قرضے حاصل کیے، اور پھر بھی روپے کی قدر میں کمی کی تمام کوششوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے ان غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو روپے اور ڈالر کی جاری شرح تبادلہ کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، اسحاق ڈار کی اس وقت خوش قسمتی تھی کہ بیرونی حالات سازگار ہونے کے وقت ملکی مالیات کی صدارت کی۔ 2014-17ء کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل خاص طور پر سستا تھا، جس کی قیمت اس سال کے شروع میں دیکھے گئے نرخوں کے نصف سے بھی کم تھی۔

قرض کے کم بوجھ کے ساتھ مل کر  کم قیمتوں کا مطلب یہ تھا کہ اسحاق ڈار ترقی کو متحرک کرنے اور قلیل المدت میں افراط زر کی شرح کو کم کرنے کے لیے حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہے۔

Advertisement

اس اقدام کو اس وقت ماہرین اقتصادیات نے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے اسحاق ڈار کی غیر پائیدار پالیسیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں خبردار کیا۔

طویل عرصےسے زیرالتواء ٹیکس اصلاحات کرنے کے بجائے اسحاق  ڈار نے بالواسطہ ٹیکسوں جیسے ودہولڈنگ ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کرنے کا سہارا لیا۔ اس دوران، انہوں نے اس وقت کی حکمران مسلم لیگ (ن) کو قابل اعتراض مالیت کے منصوبوں کی مالی معاونت کی اجازت دینے کے لیے قرضوں پر زیادہ انحصار کیا، جیسا کہ ایک بڑا اور زیر استعمال اسلام آباد ایئرپورٹ جس کی لاگت تقریباً 1 ارب ڈالر تھی۔

حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا دعویٰ ہے کہ اسحاق ڈار نے 2016/17 میں 32 ارب ڈالر محض اس لیے ضائع کیے کہ اشرح تبادلہ 105 روپے ڈالر پر برقرار رکھا جائے۔ انہوں نے یہ کام 2018ء کے انتخابات سے قبل کیا۔

اب، خوراک، خام مال، صنعتی سامان اور یہاں تک کہ ضروری ادویات میں ریکارڈ مہنگائی کے علاوہ اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے ۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان پہلے ہی دیوالیہ ہوچکا ہے۔

ملکی معیشت شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ ملک سیاسی افراتفری اور بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کے درمیان ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، روپیہ زوال پذیر ہے اور ملک مزید درآمدات کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار کرنے والی صنعت میں شدید گراوٹ آئی ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر کی نازک صورتحال، جو کہ 10 فروری 2023ء تک تقریبا3اعشاریہ19 ارب ڈالر تھی، 350ارب ڈالر کی معیشت کی بدحالی کی عکاسی کرتی ہے جو درآمدات کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے۔ صنعتی سامان لے جانے والے ہزاروں کنٹینرز اس کی بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں، جس سے پیداوار رک گئی ہے اور لاکھوں افراد کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔

Advertisement

پاکستان نے رواں برس اب تک 27 فیصد سے زیادہ افراط زر کا تجربہ کیا ہے، ملک کی جانب سے اپنے مالیاتی یا تجارتی خسارے سے نمٹنے سے مسلسل انکار کا نتیجہ، انتہائی مالیاتی کوتاہ اندیشی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بدتر ہو گیا ہے۔

جب انہوں نے گزشتہ سال چوتھی بار وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالا تو ان کا پہلا بیان یہ تھا کہ پاکستانی روپے کی قدر کم ہے۔ انہوں نے شرح سود کو کم کرنے، مہنگائی سے لڑنے اور شرح مبادلہ کو مضبوط بنانے کا عزم کیا۔

اصل زمینی حقائق کیا ہیں، سب کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
اقتصادی پالیسیوں، اصلاحات میں اقتصادی ماہرین ونجی شعبے سے مشاورت کا فیصلہ
آئی ٹی انڈسٹری معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دے، وزیراعظم
عدالت میں زیر سماعت معاملات پر خبریں چلانے پر نئی گائیڈ لائن جاری
صحافی برادری نے ہتک عزت بل 2024 کو سیاہ قانون قرار دیدیا، عدالت جانے کا اعلان
روس نے ہائپر سونک میزائل بنانے والے سائنسدان کو جیل بھیج دیا
بانی پی ٹی آئی کے خلاف نااہلی کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر