Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

چین روس تعلّقات کو شیطانی رنگ دینا بے سُود ہے

Now Reading:

چین روس تعلّقات کو شیطانی رنگ دینا بے سُود ہے

دنیا جن عظیم تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور بڑی طاقتوں کے درمیان پیچیدہ تعلّقات نے کئی لوگوں کو اعلیٰ چینی سفارت کار وانگ یی کے دورہء روس کو، درحقیقت مجموعی طور پر چین روس تعلّقات کو مختلف انداز میں دیکھنے پر اُکسایا ہے۔

Advertisement

بین الاقوامی برادری کو چین روس تعلّقات کا اِن کی ترقی کی سطح، قومی مفادات اور سلامتی کی ضروریات کی بنیاد پر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سلامتی کے نقطہء نظر سے چین اور روس کے ٹھوس تعلّقات اور کثیر جہتی تعاون کی بدولت چین کی شمالی سرحد مستحکم ہے جنہیں فریقین نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے فروغ دیا ہے۔

ترقی کے نقطہء نظر سے 1996ء میں قائم ہونے والی ہمسائیگی کی تزویراتی شراکت داری اور 2001ء میں اچھی ہمسائیگی اور دوستانہ تعاون کے طے پانے والے معاہدے کے ذریعے چین اور روس نے سفارتی مشاورت اور سیاسی باہمی اعتماد کو بڑھایا، ثقافتی تبادلے کیے اور مشترکہ فوجی مشقیں منعقد کیں۔ درحقیقت چین روس تعلّقات بڑے ممالک کے درمیان اچھے اور نتیجہ خیز تعامل کی مثال بن چکے ہیں۔

چین روس تعلّقات تیزی سے مستحکم ہوئے ہیں اور اِن کا تعاون مزید گہرا ہوا ہے کیونکہ اِن کی معیشتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، وہ مشترکا بنیادی مفادات کا اشتراک کرتے ہیں، قومی تجدید کے یکساں اہداف کی پیروی کرتے ہیں، عالمی صورتحال کا یکساں ادراک رکھتے ہیں اور ایک پُرامن اور مستحکم بین الاقوامی ماحول چاہتے ہیں۔

دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلّقات میں پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اُصولوں کو بنیاد بنایا ہے اور اچھے پڑوسی، اچھے دوست اور اچھے شراکت دار رہے ہیں اور کسی تیسرے ملک سے عدم وابستگی، عدم تصادم اور عدم ہدف کی بنیاد پر باہمی تعاون کو آگے بڑھایا ہے۔

پھر بھی چین اور روس کو شدید بیرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کی غرض سے امریکا چین اور روس کو دھمکانے کے لیے جارحانہ پالیسیاں استعمال کر رہا ہے اور نادانستہ طور پر چین اور روس کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر رہا ہے۔

چین روس تعلّقات باہمی طور پر مُفید ہیں۔ مثال کے طور پر معاشی تعاون کو ہی لے لیں۔ 2022ء میں چین روس تجارت 29اعشاریہ3 فیصد بڑھ کر 190اعشاریہ27 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ جب کہ 2022ء میں روس کو چینی اشیا کی برآمدات 76اعشاریہ12 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو سال بہ سال 12اعشاریہ8 فیصد زیادہ ہیں، چین کو روسی برآمدات 43.4 فیصد اضافے سے 114اعشاریہ15 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ فروری 2022ء میں بیجنگ میں دونوں جانب کے رہنماؤں کے مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے سالانہ تجارتی حجم 250 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم کیا ہے۔

Advertisement

روسی برآمدات کی تیز رفتار ترقی بنیادی طور پر خام مال، بالخصوص توانائی جیسے تیل، مائع پیٹرولیم گیس اور کوئلے کی فراہمی سے ہوتی ہے۔ 2022ء کے پہلے 10 ماہ میں روس نے چین روس مشرقی راستے کی پائپ لائن کے ذریعے چین کو 27 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس اور دیگر پائپ لائنوں کے ذریعے 33اعشاریہ26 لاکھ ٹن خام تیل برآمد کیا۔

روسی تیل کمپنی روزنیفٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے پہلے 10 ماہ میں روس نے چین کو 53 لاکھ ٹن کوئلہ برآمد کیا جو چین کی طرف سے کوئلے کی کل درآمد کا تقریباً 22 فیصد ہے۔

2019ء سے پاور آف سائبیریا گیس پائپ لائن کے ذریعے چین کو روسی گیس کی برآمدات بڑھ کر 38 ارب کیوبک میٹر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ 30 سالہ معاہدے کے ساتھ یہ منصوبہ مشرقی روس کی ترقی اور چین کو توانائی کی فراہمی کو مستحکم کر رہا ہے۔

توانائی کے تعاون کو مضبوط بنانا چین اور روس کے تزویراتی مفادات کے مطابق ہے۔ توانائی روسی معیشت کی اہم ترین صنعت ہے اور توانائی کی برآمدات روسی حکومت کی مالی آمدن کا تقریباً 75 فیصد بنتی ہیں۔ 2017ء میں چین نے قدرتی گیس کو اپنے صاف توانائی کے مرکب میں بتدریج توانائی کا ایک اہم ذریعہ بنانے کی تجویز پیش کی۔

چین روس توانائی تعاون لچک دار رہا ہے اور نئے دور میں ہم آہنگی کی جامع تزویراتی شراکت داری کی وسیع ترقی کی گنجائش کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے باوجود چین نے اس بات پر کافی غور کیا ہے کہ اسے روس یوکرین تنازع کو ختم کرنے میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے اور کیا ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بظاہر جو بات روس اور یوکرین کے درمیان مُتنازعہ دکھائی دیتی ہے وہ بنیادی طور پر روس اور نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) کے درمیان تنازع ہے۔

Advertisement

چین کے لیے روس اور یوکرین دونوں دوست ممالک ہیں۔ لہٰذا چین ان کے درمیان کوئی تنازع یا تصادم نہیں چاہتا۔ زیادہ اہم بات یہ کہ تنازع میں فریق نہیں بن سکتا۔

جس چیز کو چین قبول نہیں کر سکتا وہ ہے امریکی قیادت میں نیٹو کی توسیع پسندانہ پالیسی اور منسک معاہدے کی منسوخی جس سے روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ امریکا نے یوکرینی عوام کے مفادات کو نظرانداز کیا اور روس کے خلاف اپنی جغرافیائی سیاسی جنگ میں یوکرین کو پیادہ بنا دیا۔

روس یوکرین تنازع پر چین کا مؤقف شروع سے ہی واضح رہا ہے۔ چین ہمیشہ روس، یوکرین اور دیگر متعلقہ فریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ یوکرین بحران کا سفارتی حل نکالیں۔

امن کا راستہ ہموار نہیں ہوگا لیکن جب تک سنجیدہ کوششیں کی جائیں گی امن کے امکانات بلند رہیں گے۔ چین تنازع پر اپنا بامقصد اور غیر جانبدارانہ مؤقف جاری رکھے گا اور یوکرین بحران کے خاتمے میں مدد کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گا۔

یوکرین بحران کے حل کا انحصار صرف روس یا یوکرین پر ہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر امریکا کی زیر قیادت نیٹو پر بھی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے چین کو سخت دباؤ اور پابندیوں سے خبردار کرنے کے دوران، نیٹو اتحاد دنیا بھر، خصوصاً ایشیا پیسیفک خطے اور چین کے قریبی پڑوس میں توسیعی کوششیں کر رہا ہے۔

امریکا کی اشتعال انگیز اور جارحانہ پالیسی روس اور چین کو ایک دوسرے کے قریب کر چکی ہے لیکن دونوں پڑوسیوں کا گہرا تعاون اور بڑھتی شراکت داری اب بھی عدم وابستگی پر مبنی ہے اور اس کا مقصد کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔

Advertisement

اب وقت آ چکا ہے کہ امریکا کی قیادت میں نیٹو اپنے کردار پر غور کرے۔

بشکریہ: چائنا ڈیلی

مصنّف چائنا سینٹر فار کنٹیمپریری ورلڈ اسٹڈیز کے محقّق ہیں۔

باکس

چین اور روس کے مضبوط  و مستحکم تعلقات

Advertisement

مانیٹرنگ ڈیسک

میونخ

چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط اور مستحکم ہیں۔ سفارت کار نے 21 فروری کو میونخ میں روسی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نکولے پیٹروشیف سے ملاقات کی تاکہ ماسکو کے دورے کے دوران ’’تمام شعبوں میں باہمی طور پر فائدہ مند تعاون‘‘ کے بارے میں بات کی جا سکے۔

وانگ نے زور دے کر کہا کہ ’’چین اور روس کے تعلقات پختہ اور مضبوط ہیں، جو غیر مستحکم بین الاقوامی صورتحال کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک اپنے قومی مفادات اور وقار کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔

پیٹروشیف نے وانگ کو یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کی فطری قدر ہے اور بیرونی رجحانات سے متاثر نہیں ہیں۔ جب کہ دونوں ممالک زیادہ منصفانہ بین الاقوامی نظم قائم کرنے کے لیے پرعزم تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ چین کے ساتھ تزویراتی اتحاد روس کے لیے ایک ترجیح ہے۔

وانگ کے مطابق، دونوں ممالک، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کے طور پر، کرہ ارض پر امن برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔

Advertisement

وانگ کے مطابق، چین کے پاس یوکرین جنگ کے لیے امن کی ایک تجویز موجود ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہفتے کے روز میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں کچھ قوتیں امن مذاکرات کو عمل میں آتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انہوں نے اس حکمت عملی پر بعد میں بات کرنے کا وعدہ کیا۔

ڈبلیو ایس جے کے مطابق، جس نے انتظامات سے واقف افراد کا حوالہ دیا، چینی صدر ژی جن پھینگ بھی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے آئندہ مہینوں میں ماسکو کے دورے کی تیاری کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ چین یوکرین میں فوجی مہم میں روس کو ’مہلک مدد‘ کی فراہمی پر غور کر رہا ہے اور اسے اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے پیر کو نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’بیجنگ امریکہ کی جانب سے چین اور روس کے تعلقات پر انگلی اٹھانے یا حتیٰ کہ دباؤ کو بھی قبول نہیں کرے گا۔‘‘

بشکریہ: آر ٹی

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سندھ حکومت کا منشیات فروش کو پکڑنے کے لیے انوکھا اقدام
اقتصادی پالیسیوں، اصلاحات میں اقتصادی ماہرین ونجی شعبے سے مشاورت کا فیصلہ
آئی ٹی انڈسٹری معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دے، وزیراعظم
عدالت میں زیر سماعت معاملات پر خبریں چلانے پر نئی گائیڈ لائن جاری
صحافی برادری نے ہتک عزت بل 2024 کو سیاہ قانون قرار دیدیا، عدالت جانے کا اعلان
روس نے ہائپر سونک میزائل بنانے والے سائنسدان کو جیل بھیج دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر